صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
19. بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:
باب: اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5287
وَقَالَ عَطَاءٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: كَانَتْ قَرِيبَةُ بِنْتُ أَبِي أُمَيَّةَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَطَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَكَانَتْ أُمُّ الْحَكَمِ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ تَحْتَ عِيَاضِ بْنِ غَنْمٍ الْفِهْرِيِّ، فَطَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمانَ الثَّقَفِيُّ.
اور عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ قریبہ بنت ابی امیہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے (مشرکین سے نکاح کی مخالفت کی آیت کے بعد) انہیں طلاق دے دی تو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے ان سے نکاح کر لیا اور ام الحکم بنت ابی سفیان عیاض بن غنم فہری کے نکاح میں تھیں، اس وقت اس نے انہیں طلاق دے دی (اور وہ مدینہ ہجرت کر کے آ گئیں) اور عبداللہ بن عثمان ثقفی نے ان سے نکاح کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5287 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5287
حدیث حاشیہ:
اس مسئلہ میں اختلاف ہے اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ جو عورت دارالحرب سے مسلمان ہو کر دار السلام میں ہجرت کرے اس کو تین حیض تک یا حاملہ ہو تو وضع حمل تک عدت کرنی چاہیئے۔
اس کے بعد کسی سے نکاح کر سکتی ہے۔
قریبہ بنت ابی امیہ جو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن تھی اور ام الحکم ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی یہ دونوں عورتیں کافرہ تھیں جب ان کو طلاق دی گئی تو انہوں نے عدت بھی کی ہوگی لہٰذا باب کا مطلب نکل آیا۔
بعضوں نے کہا قریبہ مسلمان ہو گئی تھیں۔
بعضوں نے دو قریبہ بتلائی ہیں۔
ایک تووہ جو مسلمان ہو کر ہجرت کر آئی تھی اور ایک وہ جو کافر رہی تھی، یہاں یہی مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5287
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5287
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5287 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں دو مسئلوں کا ذکر فرمایا ہے۔
➊ اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح۔
➋ اور ان کی عدت کا بیان۔
ان دو اجزاء پر امام بخاری رحمہ اللہ تحت الباب اشارہ فرما رہے ہیں، لہٰذا پہلے جزء سے مناسبت عیاں ہے، مگر دوسرے جزء سے مناسبت بظاہر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔
لیکن غور کرنے کے بعد ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو جاتی ہے، قریبہ بنت ابی امیہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
«وهي اخت ام سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم»
”یہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔“
اور جو ام الحکم ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں، یہ بھی اور اخت ام سلمہ دونوں کافرہ تھیں، لہٰذا ترجمۃ الباب سے اس حدیث کی مناسبت کہ جب ان دونوں کو طلاق دی گئی تھی تو لازماً ان دونوں نے عدت گزاری ہو گی، بس اس سبب پر ترجمۃ الباب سے اس روایت کی نسبت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5287
حدیث حاشیہ:
(1)
آغاز ہجرت میں ایک معاشرتی مسئلہ مسلمانوں کے لیے کئی الجھنوں کا باعث بن گیا تھا وہ یہ کہ مکے میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو خود مسلمان ہو چکے تھے مگر ان کی بیویاں کافر تھیں یا بیویاں مسلمان ہو چکی تھیں مگر ان کے شوہر کافر تھے۔
ہجرت کرنے سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو گیا۔
اس اعتبار سے ہجرت کرنے والوں کی تین قسمیں تھیں:
٭ میاں بیوی دونوں ہجرت کر کے مکے سے نکل آئے جیسے حضرت عثمان اور ان کی اہلیہ۔
ایسے لوگوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
٭خاوند ہجرت کر کے مدینے آ گیا مگر اس کی بیوی بحالت کفر مکے ہی میں مقیم رہی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے مدینے آ گئے مگر ان کی دو بیویاں بحالت کفر مکے میں تھیں۔
٭بیوی مسلمان ہو کر مدینے آ گئی مگر اس کا کافر شوہر مکے میں رہا جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینے آ گئیں مگر ان کا کافر شوہر ابو العاص مکے ہی میں رہا۔
مردوں کے لیے یہ مسئلہ اتنا سنگین نہ تھا کیونکہ وہ دوسرا نکاح کر سکتے تھے مگر عورتوں کے لیے اتنی مدت تک رشتۂ ازدواج میں منسلک رہنا بہت مشکل تھا، اس لیے قرآن میں ان کا حل یوں پیش کیا گیا کہ ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان عورتوں ہی کے لیے حلال ہیں۔
(الممتحنة: 10) (2)
اس سے دو مسئلے ثابت ہوئے:
٭اختلاف دین سے نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے، یعنی کافر شوہر اور مومن بیوی یا مومن مرد اور کافر بیوی کا نکاح خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔
٭اختلاف دارین سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے، یعنی خاوند دارالاسلام میں ہے اور بیوی دارالحرب میں ہے تو نکاح خود بخود ٹوٹ جائے گا کیونکہ اب یہ رشتہ قائم رکھنا محال ہے۔
کافرعورت اگر مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آ جائے تو تین حیض عدت گزار کر عقد ثانی کر سکتی ہے کیونکہ وہ مسلمان ہونے اور ہجرت کرنے کی وجہ سے اب آزاد عورتوں میں شامل ہو گئی جن کی عدت تین حیض ہے۔
اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
”تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو۔
“ (الممتحنة: 10)
اسی قاعدے کی بنا پر قریبہ بنت ابی امیہ اور ام حکم بنت ابی سفیان دونوں کافر عورتوں کو طلاق دی گئی تو انھوں نے عدت گزار کر عقد ثانی کیا۔
واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5287