صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
15. بَابُ خِيَارِ الأَمَةِ تَحْتَ الْعَبْدِ:
باب: اگر لونڈی غلام کے نکاح میں ہو پھر وہ لونڈی آزاد ہو جائے تو اسے اختیار ہو گا خواہ وہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کر ڈالے۔
حدیث نمبر: 5282
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ عَبْدًا لِبَنِي فُلَانٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ وَرَاءَهَا فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک حبشی غلام تھے۔ ان کا مغیث نام تھا، وہ بنی فلاں کے غلام تھے۔ جیسے وہ منظر اب بھی میری آنکھوں میں ہے کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5282 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5282
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کے وقت ان کے شوہر حضرت مغیث رضی اللہ عنہ غلام تھے۔
اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے اور اس کا شوہر غلام ہو تو اسے اختیار ہے کہ وہ اس کے نکاح میں رہے یا نہ رہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا جب آزاد ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اختیار دیا تو انھوں نے اپنی ذات کو اختیار کیا، اپنے شوہر کو اختیار نہیں کیا۔
(2)
دراصل نکاح رضامندی کا سودا ہے۔
لونڈی کو نکاح کے وقت اپنے شوہر کے انتخاب کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
ممکن ہے کہ مالک نے جس شخص سے اس کا نکاح کر دیا ہو وہ اسے پسند نہ کرتی ہو، اس لیے آزادی کے بعد اسے اختیار دیا گیا ہے۔
جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کہ لونڈی کو یہ اختیار اس وقت ہوگا جب آزادی ملنے کے وقت اس کا خاوند غلام ہو، اگر وہ آزاد ہے تو پھر اسے اختیار نہیں ہے۔
واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5282