مشكوة المصابيح
كتاب المناسك
كتاب المناسك
حجۃ الوداع کا واقعہ
حدیث نمبر: 2555
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ بِالْمَدِينَةِ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ بالحجِّ فِي الْعَاشِرَةِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ ف أَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أصنعُ؟ قَالَ: «اغتسِلي واستثقري بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي» فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ» . قَالَ جَابِرٌ: لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَطَافَ سَبْعًا فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ: (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبراهيمَ مُصَلَّى) فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَرَأَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ: (قُلْ هوَ اللَّهُ أَحَدٌ و (قُلْ يَا أيُّها الكافِرونَ) ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ: (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شعائِرِ اللَّهِ) أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَقَالَ: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» . ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ نَزَلَ وَمَشَى إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ سَعَى حَتَّى إِذَا صَعِدْنَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافٍ عَلَى الْمَرْوَةِ نَادَى وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ وَالنَّاسُ تَحْتَهُ فَقَالَ: «لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أسق الهَدْيَ وجعلتُها عُمْرةً فمنْ كانَ مِنْكُم لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً» . فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى وَقَالَ: «دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ مَرَّتَيْنِ لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ» . وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: «مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أهلَّ بهِ رسولُكَ قَالَ: «فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ فَلَا تَحِلَّ» . قَالَ: فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً قَالَ: فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم وَمن كَانَ مَعَه من هدي فَمَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ وَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأجَاز رَسُول الله صلى حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ: «إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَكَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ مِنْ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ وَأَنْتُمْ [ص: 786] تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟» قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ. فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ وَدَفَعَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعَشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلَ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ فَأَتَى عَلَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ فَقَالَ: «انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ» . فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں نو سال قیام فرمایا اور اس دوران حج نہ کیا، پھر دسویں سال آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کرایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کا ارادہ رکھتے ہیں، بہت سے لوگ مدینہ پہنچ گئے، ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو جنم دیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر، کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ذوالحلیفہ) مسجد میں نماز پڑھی پھر (اونٹنی) قصواء پر سوار ہوئے حتی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیداء پر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحیدی تلبیہ پکارا: ”میں حاضر ہوں، ہر قسم کی حمد، تمام نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے تو صرف حج کی نیت کی تھی، ہمیں عمرہ کا پتہ نہیں تھا، حتی کہ ہم آپ کے ساتھ بیت اللہ میں پہنچے، تو آپ نے حجر اسود کو چوما، سات چکر لگائے، تین میں رمل کیا (ذرا اکڑ کر دوڑے) اور چار میں چلے، پھر آپ مقام ابراہیم پر آئے تو یہ آیت پڑھی: ”مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔ “ آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور مقام ابراہیم ؑ کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھی۔ پھر آپ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چوم کر دروازے سے نکل کر صفا کی طرف تشریف لے گئے، جب آپ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت تلاوت فرمائی: ”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ میں وہیں سے شروع کروں گا جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا سے شروع کیا اور اس پر چڑھ گئے حتی کہ آپ نے بیت اللہ دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبلہ رخ ہوئے تو اللہ کی توحید اور کبریائی بیان کی اور فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہر قسم کی حمد سزاوار ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا فرمایا، اپنے بندے کی نصرت فرمائی، اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست دی۔ “ پھر آپ نے اس دوران دعا فرمائی، آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے۔ پھر آپ نیچے اترے اور مروہ کی طرف گئے حتی کہ جب آپ وادی کے نشیب میں تیزی سے اترنے لگے تو آپ دوڑنے لگے حتی کہ جب آپ چڑھنے لگے تو آپ معمول کے مطابق چلتے گئے حتی کہ آپ مروہ پر پہنچ گئے اور آپ نے وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا، حتی کہ جب آپ آخری چکر میں پہنچے تو آپ مروہ پر تھے اور صحابہ آپ کے نیچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں سے آواز دیتے ہوئے فرمایا: ”جس چیز کا مجھے اب پتہ چلا ہے اگر اس کا مجھے پہلے پتہ چل جاتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور میں اس (حج) کو عمرہ میں تبدیل کر لیتا، جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہیں وہ احرام کھول دے، اور اسے عمرہ میں بدل ڈالے۔ “ سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا یہ اس سال کے لیے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور دو مرتبہ فرمایا: ”عمرہ حج میں داخل ہو گیا، اور یہ صرف ہمارے اسی سال کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ “ علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی کے لیے اونٹ لے کر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سےپوچھا: ”جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نے کہا تھا: اے اللہ! میں اسی چیز کا تلبیہ پکارتا ہوں جس کا تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلبیہ پکارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ میرے ساتھ قربانی کا جانور ہے لہذا تم احرام نہ کھولو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، قربانیوں کے جانوروں کی وہ جماعت جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے اور وہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ لے کر آئے تھے (یہ سب) ایک سو تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان صحابہ جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، کے سوا سب لوگوں نے احرام کھول دیے اوربال کتر لیے، جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن ہوا تو انہوں نے منیٰ کا ارادہ کیا اور حج کے لیے احرام باندھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے، آپ نے وہاں (منیٰ میں) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں، پھر تھوڑی دیر قیام فرمایا حتی کہ سورج طلوع ہو گیا، آپ نے نمرہ میں بالوں کا بنا ہوا خیمہ لگانے کا حکم فرمایا، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانہ ہوئے، قریش کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ آپ قریش کے دستورِ جاہلیت کے مطابق مشعرِ حرام (مزولفہ) میں وقوف فرمائیں گے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے گزر کر میدانِ عرفات میں تشریف لے گئے آپ نے دیکھا کہ نمرہ میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا ہے، آپ وہاں اترے حتی کہ سورج ڈھل گیا تو آپ نے (اپنی اونٹنی) قصواء کے بارے میں حکم فرمایا تو اس پر پالان رکھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی کے نشیب (وادی عُرنہ) میں تشریف لائے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”بے شک تمہارا خون، تمہارا مال تم (ایک دوسرے) پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، اس مہینے کی اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی ہے، جاہلیت کے خون (یعنی قتل) بھی ختم کر دیے گئے اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے، اور وہ بنو سعد قبیلے میں دودھ پی رہا تھا کہ قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کر دیا، اور جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) کا ہے، وہ مکمل طور پر ختم ہے، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، تم نے انہیں اللہ کی امان و عہد کے ساتھ حاصل کیا ہے، اور اللہ کے کلمے کے ذریعے انہیں حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر (مسکن) پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، لیکن اگر وہ ایسے کریں تو پھر تم انہیں ہلکی سی ضرب مار سکتے ہو، اور میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو پھر تم گمراہ نہیں ہونگے، اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پہنچا دیا، حق ادا کر دیا اور خیر خواہی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور اسے لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: ”اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ “ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھائی، اور آپ نے ان دونوں (نمازوں) کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی، پھر آپ سواری پر سوار ہوئے حتی کہ وقوف کی جگہ پر تشریف لے گئے، آپ نے اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ چٹانوں کی جانب کیا، اور جبل المشاۃ (پیدل چلنے والوں کی راہ میں واقع ریتلے تودے) کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ مسلسل وقوف فرمایا حتی کہ سورج غروب ہونے لگا، تھوڑی سی زردی رہ گئی حتی کہ سورج کی ٹکیہ غائب ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے بٹھایا اور وہاں سے چلے حتی کہ مزدلفہ تشریف لے آئے، آپ نے وہاں ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشا کی نمازیں پڑھیں اوران دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی، پھر آپ لیٹ گئے حتی کہ فجر پڑھی، پھر قصواء پر سوار ہوئے اور مشعرِ حرام تشریف لائے، قبلہ رخ ہو کر اس (اللہ) سے دعا کی اس کی تکبیر و تہلیل اور توحید بیان کی، آپ مسلسل کھڑے رہے حتی کہ خوب اجالا ہو گیا، آپ طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے چل دیے، آپ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا اور آپ وادی محسر پہنچے تو سواری کو تھوڑا سا تیز کیا، پھر درمیانی راستے پر ہو لیے جو کہ جمرہ عقبی پر نکلتا تھا، حتی کہ آپ اس جمرہ کے پاس پہنچے جس کے پاس درخت تھا، آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں، آپ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے، ان میں سے ہر کنکری ایسی تھی جسے چٹکی میں لے کر چلایا جا سکتا تھا، آپ نے یہ کنکریاں وادی کے نشیب سے ماریں، پھر آپ قربان گاہ تشریف لے گئے، آپ نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کیے، پھر آپ نے یہ فریضہ علی رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا تو باقی اونٹ انہوں نے ذبح کیے، اور آپ نے انہیں بھی اپنی قربانی میں شریک کیا، پھر آپ نے حکم فرمایا اور ہر اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا، آپ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے اس گوشت میں سے کچھ کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری پر سوار ہوئے اور طواف افاضہ کیا، نماز ظہر مکہ میں پڑھی، پھر آپ بنو عبدالمطلب کے پاس تشریف لے گئے جو زم زم پلا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عبدالمطلب کی اولاد، پانی نکالو، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے پانی پلانے کے اس کام میں لوگ تم پر غالب آ جائیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا۔ “ انہوں نے آپ کو ایک ڈول پانی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے نوش فرمایا۔ رواہ مسلم۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (1218/147)»
قال الشيخ الألباني: صَحِيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح