مشكوة المصابيح
كتاب الدعوات
كتاب الدعوات
سواری پر سوار ہوتے وقت کی دعا
حدیث نمبر: 2434
وَعَنْ عَلِيٍّ: أَنَّهُ أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا فَلَمَّا وضَعَ رِجْلَه فِي الركابِ قَالَ: بسمِ اللَّهِ فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ قَالَ: (سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبنَا لمنُقلِبون) ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثًا وَاللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ثُمَّ ضَحِكَ فَقِيلَ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي يَقُولُ: يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی سواری کے لئے ایک جانور لایا گیا، جب انہوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو کہا: ”بسم اللہ۔ “ جب اس کی پشت پر براجمان ہو گئے تو کہا: ”الحمدللہ۔ “ پھر فرمایا: ”پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع کر دیا جبکہ ہم تو اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے، اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ “ پھر انہوں نے تین مرتبہ ”الحمدللہ“ تین مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہا، پھر کہا: ”پاک ہے تو، میں نے ہی اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔ “ پھر وہ مسکرائے، ان سے پوچھا گیا، امیرالمومنین! آپ کس چیز سے مسکرائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا جس طرح میں نے کیا، پھر آپ مسکرائے تو میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ کس چیز سے مسکرائے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا رب اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: ”میرے رب! میرے گناہ معاف کر دے۔ “ رب تعالیٰ فرماتا ہے: ”وہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی اور گناہ معاف نہیں کرتا۔ “ صحیح، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (97/1 ح 753) و الترمذي (3446 وقال: غريب) و أبو داود (2602)»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح