مشكوة المصابيح
كتاب الدعوات
كتاب الدعوات
اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بیان
حدیث نمبر: 2377
وَعَنْ عَامِرٍ الرَّامِ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ يَعْنِي عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَيْهِ كِسَاءٌ وَفِي يَدِهِ شَيْءٌ قَدِ الْتَفَّ عَلَيْهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَرْتُ بَغِيضَةِ شَجَرٍ فَسَمِعْتُ فِيهَا أَصْوَاتَ فِرَاخِ طَائِرٍ فَأَخَذْتُهُنَّ فَوَضَعْتُهُنَّ فِي كِسَائِي فَجَاءَتْ أُمُّهُنَّ فَاسْتَدَارَتْ عَلَى رَأْسِي فَكَشَفْتُ لَهَا عَنْهُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِنَّ فَلَفَفْتُهُنَّ بِكِسَائِي فَهُنَّ أُولَاءِ مَعِي قَالَ: «ضَعْهُنَّ» فَوَضَعْتُهُنَّ وَأَبَتْ أُمُّهُنَّ إِلَّا لُزُومَهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أتعجبون لرحم أم الْفِرَاخ فراخها؟ فو الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ: لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ أُمِّ الْفِرَاخ بِفِرَاخِهَا ارْجِعْ بِهِنَّ حَتَّى تَضَعَهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُنَّ وَأُمُّهُنَّ مَعَهُنَّ. فَرَجَعَ بِهِنَّ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عامر رام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس اثنا میں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک آدمی آیا، اس پر چادر تھی اور اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جسے اس نے لپیٹ رکھا تھا، اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں درختوں کے جھنڈ کے پاس سے گزرا تو میں نے اس میں پرندوں کے بچوں کی آوازیں سنیں تو میں نے انہیں پکڑ لیا، اور انہیں اپنی چادر میں رکھ لیا، پھر ان کی ماں آئی اور میرے سر پر چکر لگانے لگی، میں نے ان (بچوں) سے پردہ ہٹایا تو وہ بھی ان پر آ گری، میں نے انہیں اپنی چادر میں لپیٹ لیا، اور وہ یہ میرے پاس ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں رکھو۔ “ اس نے انہیں رکھا تو ان کی ماں بھی ان کے ساتھ ہی رہی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم بچوں کی ماں کے اپنے بچوں کے ساتھ رحم کرنے پر تعجب کرتے ہو؟ اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اللہ اپنے بندوں کے ساتھ، بچوں کی ماں کے اپنے بچوں کے ساتھ رحم کرنے سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے، انہیں وہیں جا کر رکھ آؤ جہاں سے تم نے انہیں اٹھایا تھا۔ “ اور ان کی ماں بھی ان کے ساتھ تھی، وہ (آدمی) انہیں واپس لے گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3089)
٭ فيه أبو منظور: مجھول، و عمه: لم أعرفه، والسند مظلم.»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف