مشكوة المصابيح
كتاب فضائل القرآن
كتاب فضائل القرآن
غریب لوگ امیر لوگوں سے آدھے دن پہلے جنت میں چلے جائیں گے
حدیث نمبر: 2198
عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: جَلَست فِي عِصَابَةٍ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّ بَعْضَهُمْ لِيَسْتَتِرُ بِبَعْضٍ مِنَ الْعُرْيِ وَقَارِئٌ يَقْرَأُ عَلَيْنَا إِذْ جَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عَلَيْنَا فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكَتَ الْقَارِئُ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟» قُلْنَا: كُنَّا نَسْتَمِعُ إِلَى كتاب الله قَالَ فَقَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ أُمِرْتُ أَنْ أَصْبِرَ نَفْسِي مَعَهُمْ» . قَالَ فَجَلَسَ وَسَطَنَا لِيَعْدِلَ بِنَفْسِهِ فِينَا ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا فَتَحَلَّقُوا وَبَرَزَتْ وُجُوهُهُمْ لَهُ فَقَالَ: «أَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ صَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَاءِ النَّاسِ بِنصْف يَوْم وَذَاكَ خَمْسمِائَة سنة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مہاجرین کی ایک کمروز جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اور ان میں سے بعض (عام لباس کی وجہ سے) برہنہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اور قاری ہمیں قرآن سنا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آ کر کھڑے ہو گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے تو قاری خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کیا اور پھر فرمایا: ”تم کیا کر رہے تھے؟“ ہم نے عرض کیا ہم بغور قرآن کریم سن رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے میری امت میں ایسے افراد بنا دیے جن کے پاس ٹھہرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے وسط میں بیٹھ گئے تاکہ آپ ہم سب کو برابر شرف بخش سکیں، پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا تو انہوں نے حلقہ بنا لیا اور وہ سب آپ کے سامنے آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین کی جماعت فقراء! تمہیں قیامت کے روز مکمل نور کی خوشخبری ہو، تم مال دار لوگوں سے نصف سال پہلے، اور وہ پانچ سو سال ہے، جنت میں جاؤ گے۔ “ اسنادہ ضعیف۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3666)
٭ العلاء بن بشير: مجھول، و حديث مسلم (2979) و ابن حبان (الموارد: 2566) يغني عنه.»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف