صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
109. بَابُ غَيْرَةِ النِّسَاءِ وَوَجْدِهِنَّ:
باب: عورتوں کی غیرت اور ان کے غصے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5229
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا وَثَنَائِهِ عَلَيْهَا، وَقَدْ أُوحِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ لَهَا فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ".
مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی عورت پر مجھے اتنی غیرت نہیں آتی تھی جتنی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذکر بکثرت کیا کرتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی گئی تھی کہ آپ خدیجہ کو جنت میں ان کے موتی کے گھر کی بشارت دے دیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5229 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5229
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ایک بوڑھی عورت کی تعریف کیا کرتے ہیں، وہ مر گئی تو اللہ نے اس سے بہتر بیوی آپ کو دے دی۔
آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر عورت مجھ کو نہیں دی چونکہ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کچھ مؤاخذہ نہیں فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان کی غیرت معاف ہے جو سوکنوں میں ہوا کرتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5229
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5229
حدیث حاشیہ:
(1)
عورت کا خاوند کی دوسری بیوی پر غیرت کا سبب یہ ہے کہ اس کے خیال میں وہ دوسری بیوی سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر اس وجہ سے غیرت کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت انھیں یاد کرتے رہتے تھے اور کثرت ذکر کثرت محبت پر دلالت کرتا ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دوسری ازواج مطہرات پر غیرت کرتی تھیں لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کچھ زیادہ ہی غیرت کا مظاہرہ ہوتا تھا، حالانکہ وہ وفات پا چکی تھیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! آپ ایک بوڑھی عورت کی تعریف کیا کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر بیوی دے دی ہے۔
آپ نے فرمایا:
”اس سے بہتر بیوی مجھے نہیں دی۔
“ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3821، و مسند أحمد: 117/6، 118، و اللفظ له)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی غیرت کے اظہار پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی مؤاخذہ نہیں کیا۔
معلوم ہوا کہ ان کی غیرت قابل مؤاخذہ نہ تھی کیونکہ سوکن کے متعلق ایسی غیرت طبعی ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 405/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5229
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1997
´غیرت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے جتنی غیرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کی اتنی کسی عورت پر نہیں کی کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپ کو حکم دیا کہ انہیں جنت میں موتیوں کے ایک مکان کی بشارت دے دیں، یعنی سونے کے مکان کی، یہ تشریح ابن ماجہ نے کی ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1997]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:
(1)
اس حدیث میں ”غیرت“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس سے مراد رشک ہے جو ایک عورت کو اپنی سوکنوں سے ہوتا ہے۔
عورتوں میں یہ جذبہ فطری ہے اورخاوند سے ان کی محبت کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے اسے برداشت کرنا چاہیےجب تک اس کی وجہ سے کوئی غلط کام سرزد نہ ہو۔
(2)
اس حدیث میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت اور بلند مقام کا اظہار ہے۔
(3)
اللہ کےنبیﷺ نے عشرہ مبشرہ صحابہ کے علاوہ بھی بعض حضرات کو جنت کی خوش خبری دی تھی۔
صحابۂ کرام میں ان حضرات کا مقام بھی بہت بلند ہے۔
(4)
قصب ایسی لمبی چیز کو کہتے ہیں جو اندر سے کھوکھلی ہو، جیسے بانس وغیرہ اس سے مراد موتی کا محل بھی ہوسکتا ہےجیسے کہ بعض مومنوں کو ایک ایک موتی سے بنے ہوئے بڑے بڑے محل ملیں گے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جنت میں کھوکھلے موتی کا ایک خیمہ ہوگا جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہوگی۔
اس کے ہر کونے میں مومن کے گھروالےہوں گے (حوریں اوربیویاں)
جو دوسروں کو نہیں دیکھیں گے۔ (ایک طرف کی حوریں دوسری طرف کی حوروں سے اوجھل ہوں گی۔“
) (صحیح البخاري، التفسیر، سورۃ الرحمان، باب ﴿حور مقصورات فى الخيام﴾ ، حدیث: 4879۔)
(5)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ وہ کھوکھلا موتی سونے کا بنا ہوگا جو اندر سے ایک وسیع محل کی شان کا حامل ہوگا اور وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے مخصوص ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1997
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6004
6004. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں آتا تھا جس قدر مجھے سیدہ خدیجہ ؓ پر آتا تھا حالانکہ آپ ﷺ کی میرے ساتھ شادی سے تین سال پہلے وہ فوت ہو چکی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں آپ ﷺ کو بکثرت ان کا ذکر کرتے سنا کرتی تھی۔ آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا کہ انہیں جنت میں ایک خولدار موتیوں کے محل کو خوشخبری سنا دیں۔ آپ ﷺ جب کبھی بکری ذبح کرتے تو اس میں سے ان کی سہلیوں کو بھی ہدیہ بھیجتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6004]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کی بہت پاسداری کرتے تھے بلکہ اس سے بھی صراحت کے ساتھ ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بوڑھی عورت آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم کیسی ہو اور تمھارا کیا حال ہے؟ تم ہمارے بعد کیسے رہے؟“ اس نے کہا:
اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں خیریت سے ہوں۔
جب وہ چلی گئی تو میں نے کہا:
اللہ کے رسول! اس بوڑھی کے ساتھ آپ نے بڑی توجہ سے گفتگو فرمائی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہ خدیجہ کے زمانے میں آیا کرتی تھی اور یہ ان کی سہیلی ہے۔
حسن عہد اور اچھا برتاؤ ایمان کا حصہ ہے۔
“ (فتح الباري: 536/10) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے گزشتہ عہد کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی سہیلیوں سے بہت اچھا برتاؤ کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6004