مشكوة المصابيح
كتاب فضائل القرآن
كتاب فضائل القرآن
قرآن پر عمل باعث نجات ہے
حدیث نمبر: 2138
وَعَنِ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ قَالَ: مَرَرْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِي الْأَحَادِيثِ فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ: أَوَقَدْ فَعَلُوهَا؟ قلت نعم قَالَ: أما إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «أَلا إِنَّهَا سَتَكُون فتْنَة» . فَقلت مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «كتاب الله فِيهِ نبأ مَا كَانَ قبلكُمْ وَخبر مَا بعدكم وَحكم مَا بَيْنكُم وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ وَمَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ وَلَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلِقُ على كَثْرَةِ الرَّدِّ وَلَا يَنْقَضِي عَجَائِبُهُ هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا (إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنا بِهِ) مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ وَفِي الْحَارِث مقَال
حارث اعور ؒ بیان کرتے ہیں، میں مسجد سے گزرا تو لوگ باتوں میں مشغول تھے، میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا: کیا انہوں نے ایسے کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: سن لو! بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سن لو! عنقریب فتنے پیدا ہوں گے۔ “ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب، اس میں سابقہ قوموں کے احوال اور مستقبل کے اخبار اور تمہارے مسائل کا حل ہے، وہ فیصلہ کن ہے، بے فائدہ نہیں، جس نے ازراہ تکبر اسے ترک کر دیا، اللہ نے اسے ہلاک کر ڈالا، جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہدایت تلاش کرنے کی کوشش کی تو اللہ نے اسے گمراہ کر دیا، وہ اللہ کی مضبوط رسی (یعنی وسیلہ) ہے، وہ ذکر حکیم اور صراط مستقیم ہے، اس کی وجہ سے خواہیش ٹیڑھی ہوتی ہیں نہ زبانیں اختلاط و التباس کا شکار ہوتی ہیں اور نہ علما اس سے سیر ہوتے ہیں، کثرت تکرار سے وہ پرانی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں، وہ ایسی کتاب ہے کہ جسے سن کر جن بے ساختہ پکار اٹھے کہ ”ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو رشد و بھلائی کی طرف راہنمائی کرتی ہے لہذا ہم اس پر ایمان لے آئے۔ “ جس نے اس کے حوالے سے کہا، اس نے سچ کہا، جس نے اس کے مطابق عمل کیا وہ اجر پا گیا، جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت پا گیا۔ “ ترمذی، دارمی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کی سند مجہول ہے اور حارث پر کلام کیا گیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2906) و الدارمي (435/2 ح 3334، 3335)
٭ الحارث الأعور: ضعيف جدًا.»
قال الشيخ الألباني: ضَعِيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا