صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
97. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 506
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، كَانَ إِذَا دَخَلَ الْكَعْبَةَ مَشَى قِبَلَ وَجْهِهِ حِينَ يَدْخُلُ وَجَعَلَ الْبَابَ قِبَلَ ظَهْرِهِ، فَمَشَى حَتَّى يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ الَّذِي قِبَلَ وَجْهِهِ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثَةِ أَذْرُعٍ صَلَّى يَتَوَخَّى الْمَكَانَ الَّذِي أَخْبَرَهُ بِهِبِلَالٌ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ، قَالَ:" وَلَيْسَ عَلَى أَحَدِنَا بَأْسٌ إِنْ صَلَّى فِي أَيِّ نَوَاحِي الْبَيْتِ شَاءَ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا انہوں نے نافع سے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ میں داخل ہوتے تو سیدھے منہ کے سامنے چلے جاتے۔ دروازہ پیٹھ کی طرف ہوتا اور آپ آگے بڑھتے جب ان کے اور سامنے کی دیوار کا فاصلہ قریب تین ہاتھ کے رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں نماز پڑھی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ بیت اللہ میں جس کونے میں ہم چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 506 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:506
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ باب بلاترجمہ ہے، گویا پہلے باب کا نتیجہ یا تکملہ ہے، کیونکہ اگرچہ اس میں ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کی صراحت نہیں، تاہم اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےدیوار کعبہ سے تین ذراع کے فاصلے پر نماز پڑھی ہے اور یہ جگہ ستونوں کے درمیان واقع تھی۔
(فتح الباري: 749/1)
اس روایت پر کوئی جدید عنوان قائم کیا جاسکتا ہے، مثلاً:
”بیت اللہ کے اندر جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔
“ یہ مضمون حضرت ابن عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس بلاعنوان باب کو پہلے باب کی فصل سمجھنا چاہیے۔
اس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوستونوں کے درمیان کھڑے ہوئے، نیز آپ کے اور اس دیوار کے درمیان جس کی طرف آپ نے نماز کے لیے رخ کیا، تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔
واضح رہے کہ یہاں حضرت ابن عمر ؓ نے خود ہی وضاحت کردی ہے کہ میں اس قسم کاتتبع واجب یا ضروری سمجھ کر نہیں کرتا بلکہ مستحب اور پسندیدہ سمجھ کر اختیارکرتا ہوں۔
یقیناً حضرت ابن عمر ؓ کی یہ رائے انتہائی متوان ہے کہ ایسے مباح امور کو لازمی اور واجب سمجھ کر نہ کیا جائے، باقی ان کا استحباب تو اپنی جگہ برقرار ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 506