Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
96. بَابُ الصَّلاَةِ بَيْنَ السَّوَارِي فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ:
باب: دو ستونوں کے بیچ میں نمازی اگر اکیلا ہو تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 505
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ وَمَكَثَ فِيهَا، فَسَأَلْتُ بِلَالًا حِينَ خَرَجَ: مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:"جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ وَعَمُودًا عَنْ يَمِينِهِ وَثَلَاثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، وَكَانَ الْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ ثُمَّ صَلَّى"، وَقَالَ لَنَا إِسْمَاعِيلُ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَقَالَ: عَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ حجبی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے کعبہ کا دروازہ بند کر دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ٹھہرے رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک ستون کو تو بائیں طرف چھوڑا اور ایک کو دائیں طرف اور تین کو پیچھے اور اس زمانہ میں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے کہا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام مالک نے یہ حدیث یوں بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں طرف دو ستون چھوڑے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 505 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:505  
حدیث حاشیہ:
عبدالحمید بن محمود بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی۔
لوگوں نے ہمیں مجبور کردیا، اس بنا پر ہم نے دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔
نماز کے بعد حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ ہم عہد رسالت میں اس سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 229)
اسی طرح قرہ بن ایاس مزنی روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت میں ہمیں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے منع کیا جاتا تھا اور اس سے سختی کے ساتھ روکا جاتا تھا۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1002)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا منع ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں غیر جماعۃ کی قید لگا کر واضح کردیا کہ اس ممانعت کاتعلق نماز باجماعت سے ہے، اگر کوئی اکیلا پڑھتا ہے تواس میں چنداں حرج نہیں۔
اس کے لیے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا عمل پیش کیا ہے کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر دوستونوں کے درمیان نماز ادا کی، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
ستونوں کے درمیان اکیلا آدمی نماز پڑھ سکتا ہے، کراہت صرف بحالت جماعت ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 505   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 190  
´بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا جدھر بھی رخ کر کے نماز پڑھے جائز ہے`
«. . . 226- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيد وبلال وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر: فسألت بلالا حين خرج: ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: جعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه، وكان البيت يومئذ على ستة أعمدة، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحوا من ثلاثة أذرع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کر کے وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 190]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 505، ومسلم 1329، من حديث مالك به]
تفقہ
➊ کعبہ کے اندر (جدھر بھی رخ کیا جائے) نماز جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت اللہ کے چھ ستوں تھے۔
➌ جن لوگوں کے پاس بیت اللہ کے انتظام کی ذمہ داری ہے اُن کے لئے جائز ہے کہ بیت اللہ کا دروازہ عام لوگوں کے لئے بند رکھیں۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ مجتہدین کو مقلدین کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
➎ جب دونوں راوی ثقہ ہوں تو نفی پر اثبات مقدم ہے۔ مثلاً ایک راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور دوسرے راوی نے کہا: آپ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے تو دوسرے راوی کو ہی ترجیح حاصل ہو گی۔
➏ ثقہ کی زیادت مقبول ہے اِلا یہ کہ دوسرے ثقہ راویوں کے خلاف ہو اور تطبیق وغیرہ ممکن نہ ہو سکے۔
➐ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو! یہ ممکن ہے کہ بعض ایسی حدیثیں اُس سے مخفی رہ جائیں جو دوسروں کو معلوم ہوں لہٰذا اندھا دھند ترکِ ادلہ اور غلو فی تعظیم الرجال کا عقیدہ وطرزِ عمل غلط ہے۔
➑ حصولِ علم اور عمل کے لئے سنت کی جستجو میں رہنا چاہئے۔
➒ نماز پڑھتے ہوئے سترہ تین ہاتھ کے فاصلے پر ہونا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 226   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 874  
´کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان۔`
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 874]
اردو حاشہ:
1؎:
راجح بلال رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے،
رہی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نفی،
تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے،
نبی اکرم ﷺ دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے،
نبی اکرم ﷺ کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم ﷺ ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 874   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:149  
فائدہ:
بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا درست ہے، اس صورت میں جس طرف مرضی چہرہ کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ حطیم بھی بیت اللہ کا حصہ ہے، جس نے وہاں نماز پڑھی گویا اس نے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ نے راقم ناچیز کو جون 2013ءکو پہلی بار اپنے مقدس گھربیت اللہ کی زیارت کا موقع دیا، اس دوران کئی دفع حطیم میں نماز پڑھنے کا موقع دیا، ان شاء اللہ کسی وقت بیت اللہ کا دروازہ بھی کھول کر اندر داخل ہو کر نماز پڑھنے کا موقع ملے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 149   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:397  
397. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہیں بتایا گیا کہ دیکھو رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کا بیان ہے: میں ادھر پہنچا تو نبی ﷺ باہر تشریف لا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت بلال ؓ باہر تشریف لا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت بلال ؓ دونوں دروازوں کے درمیان کھڑے ہیں، چنانچہ میں نے حضرت بلال ؓ سے دریافت کیا: آیا نبی ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، دو رکعت (پڑھیں) ان دو ستونوں کے درمیان جو بیت اللہ میں داخل ہوتے وقت بائیں جانب ہوتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے کعبے کے سامنے دو رکعت نماز ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:397]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مقام ابراہیم کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں، بلکہ ہرحالت میں دوران نماز میں کعبے کا استقبال ہے، چنانچہ اس روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے سامنے دورکعت ادا کیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم آپ کی پچھلی جانب تھا۔
مقام ابراہیم کا قبلہ ہونا صرف اس صورت میں متعین ہے کہ نمازی اسے اپنے اور کعبے کے درمیان کرے، کیونکہ باقی تین جہتوں میں صرف بیت اللہ کی طرف منہ کرنے سے نمازدرست ہوجاتی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فرض تو استقبال قبلہ، یعنی بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ہے، مقام ابراہیم کی طرف استقبال ضروری نہیں۔

صحیح بخاری کی بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ حضرت بلال ؓ سے یہ دریافت کرنابھول گئے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ میں کتنی رکعات اداکی ہیں۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2988)
اس روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت بلال ؓ سے کیفیت کے متعلق سوال کیا، مقدار کے متعلق سوال نہ کرسکے، جبکہ مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ حضرت بلال نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت نماز ادا کی تھی،؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے سوال کرنے پر حضرت بلال ؓ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کیا جس سے دورکعت سمجھی گئیں، پھر زبانی طور پر اس کی وضاحت کرانا بھول گئے جس کا افسوس کیاکرتے تھے۔
اور جن روایات میں بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کی نفی ہے وہ مرجوح ہیں، بلکہ آپ کا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہے۔
واضح رہے کہ بیت اللہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضر بلال ؓ، حضرت اسامہ ؓ، اورحضرت عثمان بن طلحہ ؓ داخل ہوئےتھے۔
حضرت ابن عمر ؓ کو جب علم ہواتو آپ نماز سے فارغ ہوکرباہر آرہے تھے۔
(فتح الباري: 648/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 397