مشكوة المصابيح
كتاب الصلاة
كتاب الصلاة
نماز خسوف کی کیفیت اور طریقہ کا بیان
حدیث نمبر: 1482
عَن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ ثمَّ انْصَرف وَقد تجلت الشَّمْس فَقَالَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ الله رَأَيْنَاك تناولت شَيْئا فِي مقامك ثمَّ رَأَيْنَاك تكعكعت؟ قَالَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «إِنِّي أريت الْجنَّة فتناولت عُنْقُودًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا وأريت النَّار فَلم أر منْظرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ» . قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بِكُفْرِهِنَّ» . قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟. قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَو أَحْسَنت إِلَى أحداهن الدَّهْر كُله ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْك خيرا قطّ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے تقریباً سورۃ البقرۃ کی قراءت کے برابر طویل قیام فرمایا، پھر طویل رکوع فرمایا، پھر کھڑے ہوئے تو آپ نے طویل قیام فرمایا لیکن وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے طویل رکوع فرمایا، لیکن یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر کھڑے ہوئے، پھر سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے تو آپ نے طویل قیام فرمایا، جبکہ وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر طویل رکوع فرمایا، لیکن وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر کھڑے ہوئے تو طویل قیام فرمایالیکن وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر طویل رکوع فرمایا لیکن وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سجدہ کیا، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک آفتاب و ماہتاب اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں گہناتے، جب تم، دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔ “ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ جیسے آپ اپنی اسی جگہ سے کوئی چیز پکڑنا چاہتے ہیں۔ پھر ہم نے آپ کو الٹے پاؤں واپس آتے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا: ”میں نے جنت دیکھی، میں نے اس سے انگوروں کا گچھا لینا چاہا، اگر میں اسے لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے، اور میں نے جہنم دیکھی، میں نے آج کے دن کی طرح کا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا، اور میں نے وہاں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ “ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی ناشکری کی وجہ سے۔ “ عرض کیا گیا، کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ فرمایا: ”شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، وہ (خاوند کے) احسان کی ناشکری کرتی ہیں، اگر تم نے ان میں سے کسی سے زندگی بھر حسن سلوک کیا ہو، پھر اگر وہ تمہاری طرف سے کوئی ناگوار چیز دیکھ لے تو وہ کہے گی: میں نے تو تمہاری طرف سے کبھی کوئی خیر دیکھی ہی نہیں۔ “ متفق علیہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1052) و مسلم (907/17)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفق عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه