Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
59. بَابُ مَنْ أَحَبَّ الْبِنَاءَ قَبْلَ الْغَزْوِ:
باب: جہاد میں جانے سے پہلے نئی دولہن سے صحبت کر لینا بہتر ہے تاکہ دل اس میں لگا نہ رہے۔
حدیث نمبر: 5157
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَقَالَ لِقَوْمِهِ: لَا يَتْبَعْنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا وَلَمْ يَبْنِ بِهَا".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا، ان سے معمر بن راشد نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ انبیاء میں سے ایک نبی (یوشع علیہ السلام یا داؤد علیہ السلام) نے غزوہ کیا اور (غزوہ سے پہلے) اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص نہ چلے جس نے کسی نئی عورت سے شادی کی ہو اور اس کے ساتھ صحبت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور ابھی صحبت نہ کی ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5157 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5157  
حدیث حاشیہ:
(1)
جہاد میں شرکت کے لیے اس کا دل ہر قسم کی آلائش سے پاک ہونا چاہیے، اس بنا پر اگر کسی نے نکاح کیا اور بیوی کی رخصتی نہیں ہوئی اور میاں بیوی دونوں اکٹھے نہیں ہوئے تو اسے چاہیے کہ جنگ میں جانے سے پہلے پہلے اپنی بیوی کو گھر لے آئے اور اس سے مباشرت کرے تاکہ ہر قسم کے خیالات سے اس کا دل جہاد کے لیے فارغ ہو جائے۔
(2)
علامہ ابن منیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
اس سے عام لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو یہ ذہن رکھتے ہیں کہ نکاح سے پہلے حج کرنا چاہیے تاکہ عفت و عصمت کی حفاظت یقینی ہو جائے، حالانکہ اسے حج کرنے سے پہلے نکاح کرنا چاہیے تاکہ اس کا دل برے خیالات سے پاک ہو جائے، پھر حج کرنے سے اس کی روحانیت میں اضافہ ہو۔
(فتح الباري: 279/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5157   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4555  
ھمام بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں بہت سی روایات سنائیں، ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء میں سے ایک نبی نے غزوہ (جنگ) کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے فرمایا: کوئی ایسا آدمی میرے ساتھ نہ جائے، جس نے کسی عورت سے شادی کی ہے اور اب وہ اس کی رخصتی چاہتا ہے اور ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی اور نہ وہ انسان جائے، جس نے ایک عمارت بنوائی ہے، اور ابھی تک اس پر چھتیں نہیں ڈالیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4555]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مَلَكَ بُضعَ إمراة:
ایک عورت سے شادی کی اور اس سے تعلقات کا جواز پیدا ہوا ہے۔
(2)
وَلَمَّا يَبن:
تعلقات کے قیام کا جواز پیدا ہوا ہے،
لیکن ابھی تک اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
(3)
سُقْفٌ:
سَقْفٌ کی جمع ہے،
چھت،
خلفات،
خلفة کی جمع ہے،
گابھن،
حاملہ۔
فوائد ومسائل:
یہ نبی حضرت یوشع بن نون علیہ السلام تھے،
جو جمعہ کے دن،
عصر کے وقت جبکہ سورج کے غروب میں تھوڑا سا وقت باقی تھا،
لشکر لے کر اریحا نامی بستی کے قریب پہنچے اور انہوں نے سورج کو مخاطب کیا اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اس کی رفتار سست کر دی جائے یا اس کو روک لیا جائے،
تاکہ میں سورج کے غروب سے پہلے پہلے اس بستی کو فتح کر لوں تو اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ ان کے لیے سورج کی رفتار سست کر دی یا رفتار کو روک لیا،
پہلی امتوں کے لیے غنیمت کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں تھا،
اس کو یکجا کر دیا جاتا،
آسمان سے آگ اترتی تھی اور اسے کھا جاتی تھی۔
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ ذمہ داری اس کے سپرد کرنی چاہیے،
جو اس کو فارغ البال ہو کر ادا کر سکے،
اس کا دل کسی اور کام میں اٹکا ہوا نہ ہو،
کیونکہ وہ اس صورت میں پوری توجہ اور ہمت کام میں نہیں لا سکے گا،
اس لیے کام صحیح طور پر انجام نہیں پا سکے گا۔
نوٹ:
۔
۔
۔
سورج کو روکنے کا واقعہ،
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی نماز کا وقت نکل رہا تھا،
کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ران پر سر رکھ کر سو گئے تھے تو سورج کو واپس لایا گیا،
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھ لی تو غروب ہو گیا،
سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی،
اگر کسی وجہ سے رہ گئی تھی تو جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ران پر سر رکھ کر سونا چاہتے تھے تو انہوں نے آپﷺ کو یہ نہ بتایا کہ میں نے ابھی نماز پڑھنی ہے،
پھر اگر مجبوری کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو ایک رکعت کا وقت بھی باقی ہو تو نماز پڑھی جا سکتی ہے،
غروب کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے،
جیسا کہ غزوہ خندق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج کے غروب ہونے کے بعد نماز پڑھی،
آپﷺ کے لیے سورج کو واپس کیوں نہیں لایا گیا اور حضور کا فرمان ہے کہ سورج صرف حضرت یوشع بن نون کے لیے روکا گیا،
کسی اور انسان کے لیے نہیں روکا گیا،
اس لیے اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے،
کچھ ائمہ اس کو موضوع قرار دیتے ہیں اور کچھ صحیح،
لیکن اگر صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء کے نتیجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہو گا اور معجزہ اللہ کا فعل ہے،
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے،
سوال صرف صحت سند کا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4555   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3124  
3124. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔ اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔ اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں، پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3124]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں اسرائیل نبی یوشع ؑ کا ذکر ہے جو جہاد کو نکلے تھے کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔
انہوں نے دعا کی‘ اللہ نے ان کی دعا کو قبول ک، یہی وہ چیز ہے جسے معجزہ کہا جاتا ہے۔
جس کا ہونا حق ہے پہلے زمانے میں اموال غنیمت مجاہدین کے لئے حلال نہ تھا بلکہ آسمان سے آگ آتی اوراسے جلادیتی جو عند اللہ قبولیت کی دلیل ہوتی تھی۔
اموال غنیمت میں خیانت کرنا پہلے بھی گناہ عظیم تھا اور اب بھی یہی حکم ہے۔
مگر امت مسلمہ کے لئے اللہ نے اموال غنیمت کو حلال کردیا ہے۔
وہ شریعت کے حکم کے مطابق تقسیم ہوں گے۔
کم طاقتی اور عاجزی سے یہ مراد ہے کہ مسلمان مفلس اور نادار تھے اور خدا کی بارگاہ میں عاجزی اور فروتنی سے حاضر ہوتے تھے پروردگار کو ان کی عاجزی پسند آئی اور یہ سرفرازی ہوئی کہ غنیمت کے مال ان کے لئے حلال کردیئے گئے۔
ہم ان بے وقوف پادریوں سے پوچھتے ہیں جو غنیمت کا مال لینا بڑا عیب جانتے ہیں کہ تمہارے مذہب والے نصاریٰ تو دوسروں کے ملک کے ملک اور خزانے ہضم کرجاتے ہیں۔
ڈکار تک نہیں لیتے۔
جس ملک کو فتح کرتے ہیں وہاں سب معزز کاموں پر اپنی قوم والوں کو مامور کرتے ہیں‘ اہل ملک کا ذرا لحاظ نہیں رکھتے پھر یہ لوٹ نہیں تو کیا ہے۔
لوٹ سے بھی بدتر ہے۔
لوٹ تو گھڑی بھر ہوتی ہے۔
اور ظلمی انتظام تو صدہا برس تک ہوتا رہتا ہے۔
معاذ اللہ! انجیل شریف کی وہی مثال ہے کہ اپنی آنکھ کا تو شہتیر نہیں دیکھتے اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3124   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3124  
3124. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔ اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔ اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں، پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3124]
حدیث حاشیہ:

یہ نبی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے۔
انھوں نے اللہ کے حضور درخواست کی کہ وہ سورج کو چلنے سے روک دے تاکہ وہ بستی کو فتح کرلیں، چنانچہ وہ رکارہاحتی کہ وہ بستی فتح ہوگئی۔
(فتح الباري: 268/6)
اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ جمعے کا دن تھا۔
اگرسورج نہ رکتا اور غروب ہوجاتا تو ہفتے کا دن شروع ہوجاتا۔
اس دن میں اس کی عظمت کے پیش نظر جنگ کرنا حرام تھا۔
ممکن تھا کہ دشمن کو فوجی مدد پہنچ جاتی اور اسے فتح کرنے میں مشکل پیش آتی۔

پہلے انبیاء ؑ کے لیے مال غنیمت سے متعلق یہ ضابطہ تھا کہ وہ مال غنیمت میدان جنگ میں ایک جگہ جمع کردیتے تھے۔
آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی تھی۔
اگر اس میں کسی نے خیانت کی ہوتی تو اس کو آگ نہ کھاتی تھی، نیز قربانیوں کی قبولیت معلوم کرنے کے لیے بھی یہی قاعدہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت پر بہت فضل وکرم فرمایا کہ اس کے لے غنیمتوں کو حلال قراردیا، البتہ مال غنیمت میں خیانت کی سنگینی کو برقراررکھا۔
اس امت کے مسلمانوں کی اللہ کے حضور عاجزی اور مسکینی اس قدر رنگ لائی کہ مال غنیمت ان کے لیے حلال کردیاگیا۔
یہ اس امت کا خاصا ہے جو دوسری امتوں کو نہیں ملا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3124