صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
28. بَابُ لاَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا:
باب: اس بیان میں کہ اگر پھوپھی یا خالہ نکاح میں ہو تو اس کی بھتیجی یا بھانجی کو نکاح میں نہیں لایا جا سکتا۔
حدیث نمبر: 5108
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا". وَقَالَ دَاوُدُ، وَابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم نے خبر دی، انہیں شعبی نے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع کیا تھا جس کی پھوپھی یا خالہ اس کے نکاح میں ہو۔ اور داؤد بن عون نے شعبی سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5108 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5108
حدیث حاشیہ:
ابن منذر نے کہا ان پر علماءکا اجماع ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت بھی ہے کہ دو پھوپھیوں اور خالاؤں میں بھی جمع کرنا مکروہ ہے۔
قسطلانی نے کہا پھوپھی میں دادا کی بہن، ناناکی بہن، ان کے باپ کی بہن، اسی طرح خالہ میں نانی کی بہن، نانی کی ماں سب داخل ہیں اور اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ان دو عورتوں کا نکاح میں جمع کرنا درست نہیں ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد فرض کریں تو دوسری عورت اس کی محرم ہو البتہ اپنی جوروکے ماموں کی بیٹی یاچچا کی بیٹی یا پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کر سکتاہے۔
اسلام کا یہ وہ پرسنل لاء ہے جس پر اسلام کو فخر ہے۔
اس نے اپنے پیروکاروں کے لئے ایک بہترین پرسنل لاءدیا ہے۔
اس کے مقرر کردہ اصول وقوانین قیامت تک کے لئے کسی بھی رد وبدل سے بالا ہیں۔
دنیا میں کتنے ہی انقلابات آئیں نوع انسانی میں کتنا ہی انقلاب برپا ہومگر اسلامی قوانین برابر قائم رہیں گے کسی بھی حکومت کو ان میں دست اندازی کا حق نہیں ہے سچ ہے۔
﴿مایبد ل القول لدی وما انا بظلام للعبید﴾ (ق: 29)
ہاں جو غلط قانون لوگوںنے از خود بنا کر اسلام کے ذمہ لگا دئیے ہیں ان کا بدلنا بے حد ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5108