حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّأُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ:" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْكِحْ أُخْتِي بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: وَتُحِبِّينَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَارَكَنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ذَلِكِ لَا يَحِلُّ لِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِي وأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5107
حدیث حاشیہ:
اس میں ان نام نہاد پیروں مرشدوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو اپنے کو اسلام کے احکام و قوانین سے بالا سمجھ کر بہت سے ناجائز کاموں کو اپنے لئے جائز بنا لیتے ہیں اور بہت سے اسلامی فرائض و واجبات سے اپنے کو مستثنٰی سمجھ لیتے ہیں۔
﴿قَاتَلَھُم اللہ أنیٰ یؤفَکُونَ﴾ (التوبة: 30)
بہت سے نام نہاد پیر مریدوں کے گھروں میں گھس کر ان میں حجاب وغیرہ سے بالا ہو کر اس قدر خلط ملط ہو جاتے ہیں کہ آخر میں زنا کاری یا اغوا تک نوبت پہنچتی ہے۔
ایسے مریدوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ آج کل کتنے پیر مرشد اندر سے شیطان ہوتے ہیں، اسی لئے مولانا روم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نہ باید داد دست یعنی کتنے انسان درحقیقت ابلیس ہوتے ہیں بس کسی کے ظاہر کو دیکھ کر دھوکا نہ کھانا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5107
حدیث حاشیہ:
(1)
دو بہنوں کا بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
اس پر امت کا اجماع ہے۔
وہ بہنیں، خواہ حقیقی ہوں یا مادری یا پدری، خواہ نسبی ہوں یا رضاعی کسی صورت میں ایسا کرنا جائز نہیں، البتہ ایک کی وفات یا طلاق کی صورت میں عدت گزارنے پر دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔
حدیث میں ہے کہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دو بہنیں تھیں، انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! میرے ہاں دو بہنیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان میں سے ایک کو طلاق دےدو۔
“(مسند أحمد: 232/4) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے فرمایا تھا:
”تم اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے نکاح کی مجھے پیش کش نہ کیا کرو۔
“ بہرحال امت میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے، بالاتفاق دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5107
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5372
´آزاد اور لونڈی دونوں انا ہو سکتی ہیں یعنی دودھ پلا سکتی ہیں`
«. . . أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْكِحْ أُخْتِي بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: وَتُحِبِّينَ ذَلِكِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَارَكَنِي فِي الْخَيْرِ أُخْتِي، فَقَالَ: إِنَّ ذَلِكِ لَا يَحِلُّ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ . . .»
”. . . ابوسلمہ کی صاحبزادی زینب نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بہن (عزہ بنت ابی سفیان) بنت ابی سفیان سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تم اسے پسند بھی کرو گی (کہ تمہاری بہن تمہاری سوکن بن جائے)؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، اس سے خالی تو میں اب بھی نہیں ہوں اور میں پسند کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو بھی بھلائی میں اپنے ساتھ شریک کر لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ یہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔ (دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! واللہ اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ام سلمہ کی بیٹی۔ جب میں نے عرض کیا، جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میری پرورش میں نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی وہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ پس تم میرے لیے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ: 5372]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5372کا باب: «بَابُ الْمَرَاضِعِ مِنَ الْمَوَالِيَاتِ وَغَيْرِهِنَّ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آزاد اور لونڈی دونوں دایہ کے ذریعے دودھ پلانے کا جواز قائم فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں لونڈی دایہ کے بارے میں واضح الفاظ موجود نہیں ہیں۔
ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«يشير بقوله: المواليات وغيرهن إلى أن حرمة الرضاع تنتشر، كانت المرضعة حرة أصلية، مولاة، او امه لأن ثويبة كانت مولاة أبى لهب .» [المتوري: ص 307]
”امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے، «المواليات وغيرهن» کے ذریعے کہ رضاعت کی حرمت منتشر ہے، چاہے دودھ پلانے والی «حره» ہو یا «أمة» کیوں کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھیں۔“
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ثم حكم المواليات مستفاد من الحديث الذى أورده البخاري فى الباب، وأراد البخاري با يراد رواية عروة هنا، إيضاح ان ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 293/4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وأراد بذكره هنا إيضاح أن ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة .» [فتح الباري لابن حجر: 441/10]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہاں اس کے ذکر سے اس امر کا ایضا ہے کہ ثوبیہ مولاۃ تھیں، اسی بات کی طرف علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اشارہ فرما رہے ہیں پس ایک نکتہ کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 123
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3286
´شوہر کی زیر پرورش لڑکی سے شادی کی حرمت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میری بہن بنت ابی سفیان سے شادی کر لیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسے پسند کر لو گی؟“ میں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ بھلائی اور اچھائی میں میری جو ساجھی دار بنے وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”تمہاری بہن (تمہاری موجودگی میں) میرے لیے حلال نہیں ہے“، میں نے کہا: اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3286]
اردو حاشہ:
(1) ”میری بہن سے نکاح کرلیں“ ان کاخیال تھا کہ محرمات کی تحریم عام مسلماوں کے لیے ہے رسول اللہﷺ اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ بہت سے مسائل میں آپ دوسروں سے ممتاز ہیں لیکن ان کا یہ خیال درست نہیں تھا۔ بیوی کی بہن عام مسلمانو ں کی طرح آپ پر بھی حرام تھی۔
(2) ”پچھ لگ بیٹی“ یعنی بیوی کی ایسی بیٹی جو سابقہ خاوند سے ہو‘ دوسرے خاوند پر حرام ہے‘ خواہ وہ اس کے گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہی ہو یا کہیں الگ رہتی ہو۔ گھر میں پرورش پانے کا ذکر آیت اور احادیث میں غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ گھر میں رہنے یا نہ رہنے کا رشتے کی حرمت وحلت سے کیا تعلق ہے؟ چونکہ عام طور پر بچیاں والدہ کے ساتھ ہی رہتی ہیں‘ ا س لیے یہ الفاظ ذکر فرما دیے گئے‘ ورنہ یہ حرمت کے لیے شرط نہیں۔ حرمت کے سبب بیوی کی بیٹی ہونا ہی کافی ہے۔ اس حرمت میں بھی رسول اللہﷺ عام مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں۔
(3) ”ثوبیہ“ ابولہب جسے اس نے رسول اللہﷺ کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کردیا تھا۔ وہ بعد میں بھی بنوعبدالمطلب کے گھروں میں رہی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3286
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3287
´ماں اور بیٹی کو نکاح میں اکٹھا کرنے کی حرمت کا بیان۔`
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میرے باپ کی بیٹی یعنی میری بہن سے نکاح کر لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم (واقعی) اسے پسند کرتی ہو؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی تو ہوں نہیں مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو عورت میری شریک بنے وہ میری بہن ہو، (اس بات چیت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حلال ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3287]
اردو حاشہ:
باب کا مقصود یہ ہے کہ بیوی سے بیٹی کا نکاح جائز نہیں (بشرطیکہ بیوی سے جماع کرچکا ہو) نیز باب کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کو نکاح میں جمع کرنا ہے‘ حالانکہ اگر بیوی فوت ہوجائے‘ تب بھی اس کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں۔ اسی طرح بیوی کی ماں سے بھی کسی حال میں نکاح جائز نہیں‘ خواہ بیوی زندہ ہو یا فوت شدہ‘ نکاح میں باقی ہو یا اسے طلاق دے دی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3287
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3289
´کسی مرد کے نکاح میں دو بہنوں کے ایک ساتھ ہونے کی حرمت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری بہن میں کچھ رغبت (دلچسپی) ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(اگر دلچسپی ہو) تو میں کیا کروں؟“ انہوں نے کہا: آپ اس سے شادی کر لیں، آپ نے کہا: یہ اس لیے کہہ رہی ہو کہ تمہیں یہ زیادہ پسند ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی نہیں ہوں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو میری ساجھی دار بنے وہ میری اپنی سگی بہن ہو، آپ نے فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3289]
اردو حاشہ:
دو بہنوں سے بیک وقت نکاح حرام ہے مگر یکے بعد دیگرے جائز ہے، یعنی ایک مرجائے یا اسے طلاق دے دی جائے تو دوسری بہن سے نکاح ہوسکتا ہے، بخلاف بیوی کی بیٹی یا ماں کے کہ ان کے ساتھ بیوی کے مرنے یا طلاق کے باوجود نکاح نہیں ہوسکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3289
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1939
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس کو پسند کرتی ہو“؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں آپ کے پاس اکیلی نہیں ہوں (کہ سوکن کا ہونا پسند نہ کروں) خیر میں میرے ساتھ شریک ہونے کی سب سے زیادہ حقدار میری بہن ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے لیے حلال نہیں ہے“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں باتیں ہو رہی تھیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنا چاہت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1939]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔
(2)
سوتیلی بیٹی سے نکاح جائز نہیں۔
(3)
رضاعی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سے بھی اسی طرح نکاح حرام ہے جس طرح سگی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح حرام ہے۔
(4)
رضاعت کے رشتوں کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمی سے ایسی عورت سے نکاح نہ ہو جائے جس سے جائز نہیں۔
(5)
رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے فرمایا:
”اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی پیشکش نہ کریں۔“
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ام المومنین کی بہن سے نبی ﷺ اس لیے نکاح نہیں کر سکتے تھے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔
اور کسی بھی ام المومنین کی بیٹی جو نبی ﷺ کی ربیبہ (سوتیلی بیٹی)
تھی اس سے آپ کا نکاح جائز نہیں تھا۔
(6)
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ پیشکش غالباً اس لیے کر دی کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شریعت کے بعض احکام امت سے مختلف تھے، مثلاً:
آپ کا چار سے زیادہ خواتین کو بیک وقت نکاح میں رکھنا۔
انہوں نے سوچا ہوگا کہ شاید یہ رشتے بھی جو عام مومنوں کے لیے ممنوع ہیں نبی ﷺ کے لیے جائز ہوں گے۔
آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان مسائل میں آپ کے لیے الگ احکام نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1939
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5123
5123. سیدہ ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ ؓ سے نکاح کرنے والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں ام سلمہ کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کروں؟“ اگر میں نے ام سلمہ سے نکاح نہ کیا ہوتا تو بھی وہ میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ اس کے والد (سیدنا ابو سلمہ ؓ) میرے رضاعی بھائی تھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5123]
حدیث حاشیہ:
حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس روایت کو لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جو اوپر گزر چکا اس میں باب کا مطلب موجود ہے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ نے اپنی بہن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا تھا کہ آپ ان سے نکاح کر لیں اسی سے باب سے مطابقت ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5123
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5372
5372. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ ام المومنین ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میری بہن ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اسے پسند کرتی ہے؟“ مٰیں نے کہا: ہاں اب بھی میں کوئی تنہا تو آپ عقد میں نہیں ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اگر کوئی بھلائی ہو میں میرا شریک ہو تو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! واللہ! ہمیں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی ذرہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر وہ میرے زیر پرورش نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے مجھے اور ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا لہذا تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں پیش نہ کیا کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ ثوبیہ کو ابو لہب نے آزاد کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5372]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب نکالا کہ لونڈی آیا ہو سکتی ہے یعنی آزاد مردوں کو دودھ پلا سکتی ہے۔
جیساکہ ثوبیہ (لونڈی)
نے آنحضرت کو دودھ پلایا تھا۔
ثوبیہ کو ابو لہب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں آزاد کیا تھا۔
الحمد للہ کتا ب النفقات کا بیان ختم ہوا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں مسائل کو جس تفصیل سے کتاب و سنت کی روشنی میں بیان فرمایا ہے وہ حضرت امام ہی جیسے مجتہد مطلق و محدث کامل کا حق تھا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو امت کی طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے اور قیامت کے دن بخاری شریف کے جملہ قدر دانوں کو آپ کے ساتھ دربار رسالت میں شرف باریانی نصیب ہو اور مجھ ناچیز کو میرے اہل و عیال اور جملہ قدر دانوں کے ساتھ جوار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جگہ مل سکے۔
ورحم اللہ عبدا قال آمینا۔
ثوبیہ کی آزادی سے متعلق مزید تشریح یہ ہے۔
وذکر السھیل أن العباس قال لما مات أبو لھب في منامي بعد حول في شر حال فقال ما لقیت بعدکم راحة إلا أن العذاب یخلف عني کل یوم اثنین قال وذالك أن النبي صلی اللہ علیه وسلم ولد یوم الاثنین و کانت ثوبیة بشرت أبا لھب بمولدہ فأعتقھا (الحادی والعشرون، ض: 47)
سہیل نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابولہب کو مرنے کے ایک سال بعد خواب میں بری حالت میں دیکھا اور اس نے کہا کہ میں نے تم سے جدا ہونے کے بعد کوئی آرام نہیں دیکھا۔
مگر اتنا ضرور ہے کہ ہر سوموار کے دن میرے عذاب میں کچھ تخفیف ہو جاتی ہے اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوموار ہی کے دن پیدا ہوئے تھے اور ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے ابو لہب کو آپ کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی، جسے سن کر خوشی میں ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تھا۔
یہی ابو لہب ہے جو بعد میں ضد اور ہٹ دھرمی میں اتنا سخت ہو گیا کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں سورہ ﴿تَبت یَدَا أبي لَھب﴾ نازل ہوئی۔
معلوم ہوا کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر کسی صحیح حدیث کا انکار کرنا بہت ہی بری حر کت ہے۔
جیسا کہ آج کل اکثر عوام کا حال ہے کہ بہت سی اسلامی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو حق و ثابت جانتے ہوئے بھی ان کا انکار کئے جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اللہ نیک ہدایت دے اور ضد اور ہٹ دھرمی سے بچائے (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5372
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5106
5106. سیدہ ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ کو سیدنا ابو سفیان ؓ کی صاحبزادی سے کوئی دلچسپی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں اسے کیا کروں گا؟“ میں نے عرض کی: آپ سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو؟ میں نے کہا: میں آپ کی اکیلی بیوی تو نہیں ہوں۔ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ کی زوجیت میں جو میرا شریک ہو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ام سلمہ کی بیٹی کو“؟میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ میری ربیبہ ہے) اگر وہ میری ربیبہ نہ بھی ہوتی تب میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ ثوبیہ نے مجھے اور اس کے والد (ابو سلمہ) کو دودھ پلایا ہے۔ مجھے نکاح کے لیے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی پیش کش نہ کیا کرو۔ لیث نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5106]
حدیث حاشیہ:
اور کسی روایت میں زینب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5106
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5101
5101. سیدہ ام المومنین ام حبیبہ بنت ابو سفیان ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میری بہن جو ابو سفیان ؓ کی دختر ہے، سے نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم اسے پسند کرو گی؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ اب بھی تو میں آپ کی اکیلی بیوی نہیں ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میری بہن میرے ساتھ خیر و برکت میں شریک ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ سیدنا ابو سلمہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ بیٹی جو ام سلمہ کے بطن سے ہے؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ میری رہیبہ (پہلے خاوند سےاولاد، سوتیلی بیٹی) نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ تم مجھ پر اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے نہ پیش کیا کرو۔“ عروہ نے کہا: ثوبیہ ابو لہب کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5101]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن سے نکاح کی پیش کش کی لیکن آپ نے اسے شرف قبولیت سے نہ نوازا کیونکہ دو بہنیں بیک وقت کسی کے نکاح میں نہیں آسکتیں۔
ممکن ہے کہ اس کی حرمت کا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کو علم نہ ہو یا وہ اسے آپ کی خصوصیت کے طور پر جائز سمجھتی ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے احکام دوسروں سے مختلف ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب لوگوں کی یہ بات پہنچی کہ آپ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے وضاحت فرمائی:
وہ بھی میرے لیے حلال نہیں ہے اور اس کی حرمت کے دوسبب ہیں:
ایک تو یہ کہ وہ میرے زیر پرورش ہے، یعنی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی بیٹی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر تم اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے مجھے پیش نہ کیا کرو۔
(2)
اس حدیث کی مطابقت عنوان کے دوسرے جز سے ہے کہ جو رشتہ نسب کے سبب حرام ہے وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔
ضروری تنبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سُہیلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر کے دن پیدائش ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ کے جاکر اسے خوشخبری سنائی، اس خوشی میں اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔
جب وہ مرا تو ایک سال بعد خواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔
انھوں نے اسے انتہائی بری حالت میں دیکھا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ مرنے کے بعد مجھے کبھی راحت نصیب نہیں ہوئی صرف پیر کے دن عذاب میں کچھ تخفیف ہو جاتی ہے۔
(فتح الباري: 181/9)
صحیح بخاری کی اس روایت اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت سے جشن میلاد کا جواز کشید کیا جاتا ہے کہ اگر ابو لہب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن پانی دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا، اہل ایمان کو اس دن بڑھ چڑھ کر خوشی کا اہتمام کرنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ اللہ کے ہاں اس خوشی کی بنا پر خیرات وبرکات حاصل ہوں گی؟ اس استدلال پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کے بعد تئیس (23)
مرتبہ آپ کی پیدائش کا دن آیا، آپ نے جشن میلاد کا نہ خود اہتمام کیا اور نہ اس کے اہتمام ہی کا حکم دیا، یہ اس لیے کہ شریعت میں جشن میلاد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے اربعہ سے بھی اس کے متعلق کچھ منقول نہیں۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کا روزہ رکھتے تھے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا:
”اس دن میں پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھے نبوت ملی تھی۔
“ (صحيح مسلم، الصيام، حديث: 2747 (1162)
۔
197)
ہمیں اس دن روزے کا اہتمام کرنا چاہیے، وہ بھی ہر پیر کو، لیکن سال کے بعد جشن میلاد منانا اور جلوس نکالنا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اتفاق سے بقول ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش بھی بارہ ربیع الاول ہے جسے چند سال پہلے بارہ وفات کہا جاتا تھا۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ دن بہت بھاری تھا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آرہا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما تو آپ کی وفات کی وجہ سے بہت نڈھال تھیں لیکن ہم اسے دن جشن منائیں اور خوشی کا اطہار کریں ایسا کرنا صحابۂ کرام سے محبت کے منافی ہے۔
٭مذکورہ روایت مرسل ہے اور قرآن کریم کے مخالف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہم ان کے اعمال کی طرف توجہ دیں گے اور انھیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔
“ (الفرقان: 23)
جبکہ مرسل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کو آزادی کی وجہ سے پانی دیا جائے گا، نیز حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے کفر کی حالت میں یہ خواب دیکھا جو قابل حجت نہیں ہے۔
اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو خصوصیت پر محمول کیا جائے گا۔
بہرحال اس روایت سے جشن میلاد کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت ہی میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5101
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5106
5106. سیدہ ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ کو سیدنا ابو سفیان ؓ کی صاحبزادی سے کوئی دلچسپی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں اسے کیا کروں گا؟“ میں نے عرض کی: آپ سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو؟ میں نے کہا: میں آپ کی اکیلی بیوی تو نہیں ہوں۔ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ کی زوجیت میں جو میرا شریک ہو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ام سلمہ کی بیٹی کو“؟میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ میری ربیبہ ہے) اگر وہ میری ربیبہ نہ بھی ہوتی تب میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ ثوبیہ نے مجھے اور اس کے والد (ابو سلمہ) کو دودھ پلایا ہے۔ مجھے نکاح کے لیے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی پیش کش نہ کیا کرو۔ لیث نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5106]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ میں منافقین کے پروپیگنڈے سے یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے اس پروپیگنڈے سے متأثر ہو کر یہ بات کہی کہ آپ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
”وہ تو میرے لیے حلال ہی نہیں ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں:
ایک تو وہ ربیبہ ہے، یعنی اس کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما میری بیوی ہے اور دوسری یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا۔
“ٰ (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے لیث کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی کا نام درّہ تھا جیسا کہ آئندہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5107)
کچھ حضرات نے اس لڑکی کا نام زینب بتایا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
اس کا نام درّہ ہے زینب نہیں۔
(فتح الباری: 200/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5106
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5123
5123. سیدہ ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ ؓ سے نکاح کرنے والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں ام سلمہ کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کروں؟“ اگر میں نے ام سلمہ سے نکاح نہ کیا ہوتا تو بھی وہ میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ اس کے والد (سیدنا ابو سلمہ ؓ) میرے رضاعی بھائی تھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5123]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق یہ روایت لا کر ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن سے نکاح کی پیش کش کی تھی۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5107)
اس پیش کش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے رد کر دیا کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع نہیں کیا جا سکتا۔
(2)
بہرحال یہ ثابت ہوا کہ کسی نیک صالح مرد کو اپنی بہن، بیٹی وغیرہ سے نکاح کی پیش کش کی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی عار یا بے عزتی والی بات نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5123
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5372
5372. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ ام المومنین ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میری بہن ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اسے پسند کرتی ہے؟“ مٰیں نے کہا: ہاں اب بھی میں کوئی تنہا تو آپ عقد میں نہیں ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ اگر کوئی بھلائی ہو میں میرا شریک ہو تو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! واللہ! ہمیں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی ذرہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر وہ میرے زیر پرورش نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے مجھے اور ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا لہذا تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں پیش نہ کیا کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ ثوبیہ کو ابو لہب نے آزاد کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5372]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ لونڈی دودھ پلا سکتی ہے اور اس کا دودھ پینے میں کوئی عار نہیں جیسا کہ حضرت ثوبیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5372