Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
18. بَابُ مَا يُتَّقَى مِنْ شُؤْمِ الْمَرْأَةِ:
باب: عورت کی نحوست سے بچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5095
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالْمَسْكَنِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر (نحوست) کسی چیز میں ہو تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5095 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5095  
حدیث حاشیہ:
اس کا بیان اوپر گزر چکا ہے ایک حدیث میں ہے کہ انسان کی نیک بختی یہ ہے کہ اس کی عورت اچھی ہو اورسواری اچھی ہو، گھر اچھا ہو اور بدبختی یہ ہے کہ جورو بری ہو، گھر برا ہو، سواری بری ہو۔
علماء نے کہا ہے عورت کی نحوست یہ ہے کہ بانجھ ہو، بد اخلاق، زبان دراز ہو۔
گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اس پرجہاد نہ کیا جائے، شریر بد ذات ہو۔
گھر کی نحوست یہ ہے کہ آنگن تنگ ہو، ہمسائے برے ہوں لیکن نحوست کے معنی بد فالی کے نہیں ہیں جس کوعوام نحوست سمجھتے ہیں۔
یہ تو دوسری صحیح حدیث میں آ چکا ہے کہ بدفالی لینا شرک ہے۔
مثلا باہر جاتے وقت کوئی کانا آدمی سامنے آ گیا یا عورت یا بلی گزر گئی یا چھینک آئی تو یہ نہ سمجھنا کہ اب کام نہ ہوگا۔
یہ ایک جہالت کا خیال ہے جس کی دلیل عقل اور شرع سے بالکل نہیں ہے، اس طرح تاریخ یا دن یا وقت کی نحوست یہ سب باتیں محض لغو ہیں جو لوگ ان پر اعتقاد رکھتے ہیں وہ پکے جاہل اور ناتربیت یافتہ ہیں۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5095   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5095  
حدیث حاشیہ:
(1)
احادیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مذکورہ تینوں چیزین ہی منحوس ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اگر نحوست کا وجود ہے تو وہ ان تین چیزوں میں ہو سکتی ہے وہ بھی تمام میں نہیں بلکہ کچھ میں ہوتی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نیک عورت، اچھا مکان اور بہترین سواری کا میسر آنا ابن آدم کی نیک بختی اور بری عورت، گندا مکان، ناکارہ سواری کا ہونا ابن آدم کی بدبختی ہے۔
(مسند أحمد: 168/1)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین چیزیں منحوس ہیں:
ایک عورت، جسے تو دیکھے تو وہ تجھے بری لگے اور تجھ سے بد زبانی کرے، دوسرا سست گھوڑا، اگر تو اسے مارے تو تجھے مشقت اٹھانا پڑے اور اگر اسے کچھ نہ کہے تو تجھے ساتھیوں تک نہ پہنچا سکے، تیسرا وہ مکان جو تنگ و تاریک ہو جس میں تجھے نفع بہت کم ہو۔
(المستدرك للحاكم: 162/2، و سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني، حديث: 1047) (2)
دراصل شوم کے دو معنی ہیں:
ایک نحوست اور اس کا بے برکت ہونا اور دوسرے طبیعت پر کسی چیز کا ناگوار ہونا اور اس کا قابل نفرت ہونا۔
جن روایات میں شوم کی نفی ہے اس سے مراد پہلے معنی ہیں اور جن میں اثبات ہے اس سے مراد دوسرے معنی ہیں۔
ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر انسان کسی مکان میں سکونت کو اچھا نہیں سمجھتا کیونکہ وہ تنگ و تاریک ہے تو وہاں سے نقل مکانی کر لے اور اگر عورت بد خلق اور بانجھ ہے اس کے ساتھ مباشرت بے سود ہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر گھوڑا اڑیل یا سست رفتار ہے تو اسے فروخت کردے اور خود سے پریشانی کو دور کرے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5095   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 437  
´نحوست و بدشگونی کچھ نہیں ہے`
«. . . 412- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن كان ففي الفرس والمرأة والمسكن، يعني الشؤم. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑے، عورت اور مکان میں ہوتی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 437]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2859، ومسلم 2226، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ معلوم ہوا کہ بدشگونی کسی چیز میں بھی نہیں ہے اور اگر ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی جن کی وجہ سے روئے زمین پر فساد بپا ہے۔
➋ گھوڑے سے مراد فوجیں ہیں اور گھوڑے بھی مراد لئے جا سکتے ہیں۔ واللہ اعلم
➌ مزید فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے حدیث [البخاري 5093، ومسلم 2225] اور راقم الحروف کی کتاب صحیح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائزہ [ص70]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 412   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2859  
2859. حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نحوست اگر کسی چیز میں ہے تو وہ عورت، گھوڑے اور گھر میں ہو سکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2859]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث میں تین چیزوں کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ انسان کو زندگی میں ان کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نے کسی نہ کسی جگہ رہائش کرناہوتی ہے تو مکان کی ضرورت ہے۔
زندگی بسر کرنے کے لیے کسی رفیق کی بھی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا جس کے ساتھ وہ رہائش اختیار کرسکے تو اس کے لیے بیوی کی ضرورت ہے۔
پھر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد لازمی ہے،لہذا گھوڑے کا پاس ہونا ضروری ہے۔
طویل مدت پاس رہنے سے کبھی انھیں مکروہ چیز بھی لاحق ہوسکتی ہے۔
اسے نحوست سے تعبیر کیاگیا ہے،حالانکہ نحوست وبرکت تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،کوئی چیز بھی ذاتی طور پر منحوس نہیں ہوتی جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔

عورت میں نحوست یہ ہے کہ وہ بانجھ اور بدخلق ہو۔
گھوڑے میں نحوست کے یہ معنی ہیں کہ وہ ضدی،اڑیل مزاج اور سواری کے قابل نہ ہو جس کی وجہ سے وہ جہاد کے کام نہ آسکے۔
اور گھر میں نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ وتاریک،مسجد سے دور اور اس کا ہمسایہ اچھا نہ ہو۔

امام بخاری ؒنے مسئلہ نحوست حل کرنے کے لیے عجیب انداز اختیار کیا ہے جس سے ان کی جلالت قدر اور دقت فہم کا اندازہ ہوتا ہے،چنانچہ ان کے نزدیک پہلی حدیث میں کلمہ حصر ''إنما'' اپنے اصل معنی پر نہیں بلکہ اس میں تاویل کی گنجائش ہے،چنانچہ دوسری حدیث میں اس طرف اشارہ کیا کہ اگرنحوست نامی کوئی چیز ہوتی تو عورت،گھوڑے اور گھر میں ہوتی،یعنی نحوست حتمی نہیں بلکہ اس کا ممکن ہونا بیان فرمایا۔
اگلے عنوان کے تحت ذکر کردہ حدیث میں گھوڑوں کی تین قسمیں بیان کرکے یہ بتایا کہ یہ نحوست تمام گھوڑوں میں نہیں،ان میں ہوسکتی ہے جو دین کی سربلندی کے لیے نہ رکھے ہوں۔

اس سلسلے میں درج ذیل آیات اس بحث کے متعلق فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں:
﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ﴾ جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اس کے اذن سے آتی ہے۔
(التغابن 64/11)
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ﴾ کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمہارے نفوس کو پہنچتی ہے وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
(الحدید 57/22)
نیز فرمایا:
﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ﴾ اور تمھیں جو مصیبت بھی آتی ہے، تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب آتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتاہے۔
(الشوریٰ: 42/30)
بہرحال نحوست کسی چیز میں ذاتی نہیں ہوتی بلکہ کثرت استعمال کی وجہ سے کسی چیز میں کوئی ناگوار چیز پیدا ہوسکتی ہے۔
ذاتی نحوست،اہل جاہلیت کے خیالات ہیں جن کی شریعت نےتردید فرمائی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2859