مشكوة المصابيح
كِتَاب الطَّهَارَةِ
طہارت کا بیان
معمولی سی بے احتیاطی قبر کے عذاب کا موجب
حدیث نمبر: 338
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحدهمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ-وَفِي رِوَايَةٍ لمُسلم: لَا يستنزه مِنَ الْبَوْلِ-وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثمَّ أَخذ جَرِيدَة رطبَة فَشَقهَا نِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً قَالُوا يَا رَسُول الله لم صنعت هَذَا قَالَ لَعَلَّه يُخَفف عَنْهُمَا مَا لم ييبسا
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا، ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کیا کرتا تھا، اور مسلم کی روایت میں ہے: پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کیا کرتا تھا، جبکہ دوسرا شخص چغل خور تھا۔ “ پھر آپ نے ایک تازہ شاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے، پھر ہر قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ممکن ہے ان کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے۔ “ متفق علیہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (216) و مسلم (111/ 292)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه