حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِيَاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ أَوْ جَمَلِهِ وَهِيَ تَسِيرُ بِهِ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفَتْحِ، أَوْ مِنْ سُورَةِ الْفَتْحِ قِرَاءَةً لَيِّنَةً يَقْرَأُ وَهُوَ يُرَجِّعُ".
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1467
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1467]
1467. اردو حاشیہ: صحیح حدیث میں ہے کہ جناب معاویہ بن قرۃ نے حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت پڑھ کر سنائی۔ اور کہا کہ اگر لوگوں کے اکھٹے ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا۔ تو میں تمھیں سیدنا ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت سناتا جو انہوں نے مجھے نبی کریمﷺ سے سنائی تھی۔ شعبہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ان کی ترجیح کس طرح تھی؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار [صحیح بخاری، التوحید، حدیث: 7540]
ترجیع سے مراد آواز کو حلق میں لوٹانا اور بلند کرنا ہے۔ تاکہ لحن لزیز بن جائے۔ معلوم ہوا ترجیع اور عمدہ لحن سے قرآن پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1467
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1853
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے سال راستہ میں اپنی سواری پر سورہ فتح کی تلاوت فرمائی اور اپنی قراءت میں آواز کو دہرایا۔ معاویہ بن قرۃ کہتے ہیں، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہو جائیں گے تو میں تمھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی نقل اتار کر سناتا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1853]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ترجیع تکرار یا دہرانے کو کہتے ہیں چونکہ آپﷺ سواری پر تھے اس لیے آواز میں زیرو بم پیدا ہوتا تھا سواری کی حرکت سے آواز میں لرزش پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ حسنِ صوت میں اضافہ ہوتا ہے اور سننے والے کو لذت و سرور حاصل ہوتا ہے آپﷺ کی آواز اور ترجیع سے عجیب کیفیت پیدا ہوئی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1853
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1854
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر بیٹھے ہوئے سورہ فتح پڑھتے ہوئے دیکھا، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قراءت میں ترجیع کی یعنی گنگناہٹ پیدا کی، معاویہ کہتے ہیں اگر مجھے لوگوں (کے اجتماع) کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمھارے لئے وہی طریقہ اپناتا کرتا جو حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1854]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کی قرآءت کی حکایت و نقل کرتے ہوئے آواز کو کھینچا جیسے آآآ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1854
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5034
5034. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت انہوں نے کہا کہ میں فتح مکہ والے دن، رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر سورہ فتح تلاوت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5034]
حدیث حاشیہ:
قرآن پاک کی تلاوت بھی ایک قسم کا ذکر الٰہی ہے جو آیت ﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران: 191)
کے تحت ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5034
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7540
7540. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا جبکہ آپ سورت ”الفتح“ یا اس کی کچھ آیات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے تلاوت کرتے وقت ترجیع فرمائی۔ (راؤی حدیث) معاویہ بن قرہ نے سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ کی قراءت کی حکایت کرتے ہوئے کہا: اگر لوگ تم پرہجوم نہ کریں تو میں ترجیع کروں جیسے ابن مغفل ؓ نے ترجیع کی تھی۔ وہ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی نقل کرتے تھے۔ (شعبہ نے کہا:) میں نے معاویہ سے پوچھا کہ ابن مغفل ؓ کیس ترجیع کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز دہراتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7540]
حدیث حاشیہ:
آواز کو دہرا دہرا کر پہلے پست پھر بلند سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7540
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4281
4281. حضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا۔ آپ اس وقت سورہ فتح بڑی خوش الحانی سے پڑح رہے تھے۔ راوی کہتا ہے: اگر میرے گرد لوگوں کے جمع ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بھی اسی طرح خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سناتا جیسے انہوں نے پڑھ کر سنایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4281]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک لفظ کو پہلے آہستہ، پھر اسے بآواز بلند پڑھنے کو ترجیع کہتے ہیں۔
راوی حدیث حضرت معاویہ بن قرہ نےحضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کے لب ولہجے کے مطابق تھوڑی سی قراءت کی پھر وضاحت فرمائی جو حدیث میں مذکور ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دھیمے لہجے سے اس سورت کو پڑھا۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5047۔
)
بعض روایات میں مزید تفصیل اور صوتی طریقے کی وضاحت ہے۔
حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں کہ پھرمعاویہ بن قرہ نے حضرت ابن مغفل ؓ کے لب ولہجے کے مطابق قراءت کی اور فرمایا:
اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہو کہ لوگوں کا ہجوم ہوگا تو میں ترجیع سے پڑھ کر تمھیں سناؤں۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے پوچھا:
ترجیع کیا ہوتی ہے؟تو انھوں نے بتایا کہ تین مرتبہ حلق میں آواز کو پھیرا جائے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540۔
)
2۔
واضح رہے کہ یہ ترجیع سواری پر بیٹھنے کی وجہ سے غیر اختیاری نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے اختیار سے پڑھاتھا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4281
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4835
4835. حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن سورہ فتح کی تلاوت فرمائی۔ تلاوت کرتے وقت خوش الحانی کو ملحوظ رکھا۔ حضرت معاویہ بن قرہ نے کہا: اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی ﷺ کی اس موقع پر طرز قراءت کی نقل کروں تو کر سکتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4835]
حدیث حاشیہ:
1۔
ترجیع گلے میں آواز پھیرنے کو کہتے ہیں جیسے خوش الحان لوگ کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن پڑھنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ نے ارادہ اور اختیار سے خوش الحانی کے طورپر اس انداز کو اختیار کیا تھا کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ بڑی نرمی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5047)
2۔
آپ نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سےفرمائی ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے پوچھا:
آپ ترجیع کیسے کرتے تھے؟ تو بتایا گیا کہ آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز کو دہراتے تھے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540)
اس انداز سے تلاوت کرنے میں خوشی کے جذبات بھی شامل تھے کیونکہ آپ فاتحانہ طور پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4835
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5034
5034. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت انہوں نے کہا کہ میں فتح مکہ والے دن، رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر سورہ فتح تلاوت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5034]
حدیث حاشیہ:
بعض اسلاف سے سواری پر تلاوت کرنے کے متعلق کراہت منقول ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے شارح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ثابت کرنا ہےکہ سواری پر تلاوت کرنا مسنون امر ہے اور اس سنت کی بنیاد درج ذیل ارشادباری تعالیٰ ہے۔
”پھر تم اس پر ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کا احسان یاد کرو اور کہو:
پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارےلیے اسے مسخر کر دیا اور ہم تو اسے قابو میں نہ لاسکتےتھے۔
“ (الزخرف: 43۔
13)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر بیٹھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
(سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13)
وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ)
اس سے معلوم ہوا کہ سواری پر قرآن پڑھا جا سکتا ہے اس کا اصل قرآن میں موجود ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3275۔
(1342، فتح الباري: 97/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5034
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7540
7540. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا جبکہ آپ سورت ”الفتح“ یا اس کی کچھ آیات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے تلاوت کرتے وقت ترجیع فرمائی۔ (راؤی حدیث) معاویہ بن قرہ نے سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ کی قراءت کی حکایت کرتے ہوئے کہا: اگر لوگ تم پرہجوم نہ کریں تو میں ترجیع کروں جیسے ابن مغفل ؓ نے ترجیع کی تھی۔ وہ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی نقل کرتے تھے۔ (شعبہ نے کہا:) میں نے معاویہ سے پوچھا کہ ابن مغفل ؓ کیس ترجیع کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز دہراتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7540]
حدیث حاشیہ:
1۔
آواز کو باربار دہرا کر پہلے پست، پھر بلند آواز سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادے اور اختیار سے خوش الحانی کے طور پر یہ انداز اپنایا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سے فرمائی ہے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرماتی ہیں کہ میں نےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز قرآن خوانی کو ملاحظہ کیا۔
میں اپنے بستر پر سوئی ہوئی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ترجیع کے ساتھ قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔
(أصل صفة الصلاة للألباني: 568/2 وشرح کتاب التوحید للغنیمان: 581/2)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ترجیع کو اختیار کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کیا ہوا اپنا انداز اور فعل تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر اپنی آواز کو گلے میں بار بار پھیرتے اور کلام باری تعالیٰ کو دہراتے۔
اس انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اپنے رب کا کلام پہنچایا۔
آواز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔
اور کلام اللہ تعالیٰ کا تھا جوغیر مخلوق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7540