حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ:"لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ، وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ سورة القيامة آية 1، لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ {16} إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ {17} فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ {18} سورة القيامة آية 16-18 فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19، قَالَ: إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، قَالَ: وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5044
حدیث حاشیہ:
آیت ثم ان علینا بیانہ (القیا مہ: 19)
سے ثابت ہواکہ سلسلہ تفسیرقرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا جسے لفظ حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ سارا ذخیرہ بھی اللہ پاک ہی کا تعلیم فر مودہ ہے۔
اسی سے احادیث کووحی غیر متلوسے تعبیرکیا گیا ہے جولوگ احادیث صحیحہ کے منکر ہیں وہ قرآن پاک کی اس آیت کا انکار کر تے ہیں اس لئے وہ صرف منکر حدیث ہی نہیں بلکہ منکر قرآن بھی ہیں ھداھم اللہ الی صراط مستقیم آیت۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5044
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5044
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتلاوت کے وقت جلدی کرنے سے منع کیاگیاہے،اس کا تقاضا ہے قرآن کریم کوخوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔
ترتیل قرآن کا یہی حق ہے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت کو اس قدر ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ سورت بہت طویل ہوجاتی۔
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین وقصرھا حدیث: 1712(733)
اسی طرح حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتےہیں کہ جب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرآن سناتا تو فرماتے:
"قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو کیونکہ ایسا کرنا قرآن کی زینت ہے۔
"(السنن الکبری للبیہقی 54/2 وفتح الباری 113/9)
2۔
قرآن مجید کے ہم پر کئی ایک حقوق ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے آہستہ آہستہ خوب ٹھہر ٹھہر کرپڑھا جائے اور پڑھتے وقت حروف کے مخارج اور صفات کا خیال رکھاجائے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5044
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5
´وحی کی ابتدائی کیفیت `
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 5]
� تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی ابتدائی کیفیت کے بیان میں اس حدیث کا نقل کرنا بھی مناسب سمجھا جس سے وحی کی عظمت اور صداقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اس لیے کہ اللہ پاک نے ان آیاتِ کریمہ «لاتحرك به لسانك لتعجل به» [القيامة: 16] میں آپ کو پورے طور پر تسلی دلائی کہ وحی کا نازل کرنا، پھر اسے آپ کے دل میں جما دینا، اس کی پوری تفسیر آپ کو سمجھا دینا، اس کا ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنا یہ جملہ ذمہ داریاں صرف ہماری ہیں۔ ابتداءمیں آپ کو یہ کھٹکا رہتا تھا کہ کہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے جانے کے بعد میں نازل شدہ کلام کو بھول نہ جاؤں۔ اس لیے آپ ان کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے اپنی زبانِ مبارک ہلاتے رہتے تھے، اس سے آپ کو روکا گیا اور بغور و توجہ کامل سننے کے لیے ہدایتیں کی گئیں، جس کے بعد آپ کا یہی معمول ہو گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ «لاتحرك به» الخ کے نزول کے وقت عالم وجود میں نہ تھے۔ مگر بعد کے زمانوں میں جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ابتدائی حالات بیان فرماتے تب ابتدائے نبوت کی پوری تفصیل بیان فرمایا کرتے تھے، ہونٹ ہلانے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے عہد میں دیکھا اور فعل نبوی کی اقتدا میں اپنے ہونٹ ہلاکر اس حدیث کو نقل فرمایا۔ پھر حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے بھی اپنے عہد میں اسے روایت کرتے وقت اپنے ہونٹ ہلائے۔ اسی لیے اس حدیث کو ”مسلسل بتحریک الشفتین“ کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی حدیث جس کے راویوں میں ہونٹ ہلانے کا تسلسل پایا جائے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وحی کی حفاظت کے لیے اس کے نزول کے وقت کی حرکات و سکنات نبویہ تک کو بذریعہ نقل در نقل محفوظ رکھا گیا۔ آیتِ شریفہ «ثم ان علينا بيانه» میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن مجید کی عملی تفسیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور اپنے عمل سے دکھلائی یہ بھی سب اللہ پاک کی وحی کے تحت ہے، اس سے حدیث نبوی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی میں شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ان کو غلط قرار دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ان کے خیالات باطلہ کی بھی یہاں پوری تردید موجود ہے۔ صحیح مرفوع حدیث یقینا وحی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنی وحی کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیرمتلو قرار دیا گیا ہے۔
حدیث مذکورہ سے معلم و متعلّم کے آداب پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک متعلّم کی حیثیت میں استماع اور انصات کی ہدایت فرمائی گئی۔ استماع کانوں کا فعل ہے اور انصات بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آنکھوں سے ہوتا ہے۔ پس متعلّم کے لیے ضروری ہے کہ درس کے وقت اپنے کانوں اور آنکھوں سے معلّم پر پوری توجہ سے کام لے۔ اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھے، لب و لہجہ کے اشارات سمجھنے کے لیے نگاہ استاد کی طرف اٹھی ہوئی ہو۔ قرآن مجید و حدیث شریف کی عظمت کا یہی تقاضا ہے کہ ان ہر دو کا درس لیتے وقت متعلّم ہمہ تن گوش ہو جائے اور پورے طور پر استماع اور انصات سے کام لے۔ حالتِ خطبہ میں بھی سامعین کے لیے اسی استماع و انصات کی ہدایت ہے۔ نزول وحی کے وقت آپ پر سختی اور شدت کا طاری ہونا اس لیے تھا کہ خود اللہ پاک نے فرمایا ہے «اناسنلقي عليك قولا ثقيلا» بے شک ہم آپ پر بھاری باعظمت کلام نازل کرنے والے ہیں۔ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔ وہی کیفیت یہاں بیان کی گئی ہے۔
آیت شریفہ میں زبان ہلانے سے منع کیا گیا ہے اور حدیث ہذا میں آپ کے ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے۔ یہاں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ کتاب التفسیر میں حضرت جریر نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے اس واقعہ کی تفصیل میں ہونٹوں کے ساتھ زبان ہلانے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم اذا نزل جبرئيل بالوحي فكان ممايحرك بلسانه وشفتيه» اس صورت میں آیت و حدیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔
راویانِ حدیث: حضرت موسیٰ بن اسماعیل منقری۔ منقر بن عبید الحافظ کی طرف منسوب ہیں۔ جنھوں نے بصرہ میں 223 ھ ماہِ رجب میں انتقال فرمایا۔ غفر اللہ لہ۔ ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ ہیں جن کا 196 ھ میں انتقال ہوا۔ موسیٰ بن ابی عائشہ (الکوفی الہمدانی) ہیں۔ سعید بن جبیر بن ہشام الکوفی الاسدی ہیں۔ جن کو 96 ھ میں مظلومانہ حالت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ جن کی بددعا سے حجاج پھر جلد ہی غارت ہو گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ترجمان القرآن کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے لیے فہم قرآن کی دعا فرمائی تھی۔ 68ھ میں طائف میں ان کا انتقال ہوا۔ صحیح بخاری شریف میں ان کی روایت سے 217 احادیث نقل کی گئی ہیں۔ [قسطلانی]
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7524
7524. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ نبی ﷺ نزول وحی کے وقت شدت محسوس کرتے تھے اور اپنے ہونٹ ہلاتے تھے۔ میں تمہیں ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ انہیں حرکت دیا کرتے تھے۔ (راؤی حدیث) سیدنا سعید بن جبیر نے کہا: میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جیسے میں نے سیدنا ابن عباس ؓ کو ہونٹ ہلاتے دیکھا تھا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس ؓ کہتے ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اس (وحی) کو آپ کے دل میں جمع کرنا اور زبان سے پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے۔“ یعنی تمہارے سینے میں قرآن کا ج دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ ”پھر جب اس کو پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جبریل کے پڑھتے وقت کان لگا سنتے رہیں اور خاموش رہیں یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ قرآن اسی طرح پڑھیں گے۔ سیدنا ابن عباس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7524]
حدیث حاشیہ:
حضرت اما م بخاری کامقصد یہ ہے کہ ہمارے الفاظ قرآن جومنہ سے نکلتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جومخلوق ہے اورقرآن اللہ کا کلام ہے جوغیر مخلوق ہے۔
حضر ت سعید بن جبیر مشہور تابعی اسدی کوفی ہیں۔
حجاج بن یوسف نےان کوشعبان سنہ 99ھ میں بعمر50سال شہید کیا۔
حضرت سعید بن جبیر کی بدعا سےحجاج بن یوسف پندرہ دن بعد مر گیا۔
یو ں کہتا ہوا کہ میں جب سونے کا ارادہ کرتا ہوں توسعید ین جبیر میرا پاؤں پکڑ لیتا ہے۔
حضرت سعید بن جبیر مضافات میں دفن کئے گئے۔
رحمه اللہ رحمة واسعة۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7524
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 936
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے قول: «لا تحرك به لسانك لتعجل به * إن علينا جمعه وقرآنه» (القیامۃ: ۱۶- ۱۷) کی تفسیر میں مروی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی اترتے وقت بڑی تکلیف برداشت کرتے تھے، اپنے ہونٹ ہلاتے رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبی! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، کیونکہ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے“ ۱؎، ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ «جمعه» کے معنی: اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں بیٹھا دینا ہے، اور «قرآنه» کے معنی اسے اس طرح پڑھوا دینا ہے کہ جب آپ چاہیں اسے پڑھنے لگ جائیں «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» میں «فاتبع قرآنه» کے معنی ہیں: آپ اسے غور سے سنیں، اور چپ رہیں، چنانچہ جب جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ بغور سنتے تھے، اور جب روانہ ہو جاتے تو آپ اسے پڑھتے جس طرح انہوں نے پڑھایا ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 936]
936 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔
➋ حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: ”اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔“ [عون الباري: 1: 58]
یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا﴾ » [المزمل: 5: 73]
”یقیناً ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔“
➌ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انہیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قرأت مکمل کر لیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى﴾ » [الاعلیٰ: 6: 87]
”ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔“
➎ اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کر سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 936
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1332
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندوں کے اس وقت تک ساتھ رہتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے لئے اس کے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں۔“ اس کو ابن ماجہ نے نکالا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقاً بیان کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1332»
تخریج: «أخرجه ماجه، الأدب، باب فضل الذكر، حديث:3792، وابن حبان(الإحسان):2 /92، والبخاري تعليقًا، التوحيد، باب قول الله تعالي: " لا تحرك به لسانك..."، قبل حديث:7524.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
2. اللہ کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور ساتھ نصیب ہوتا ہے۔
3.
”ذکر
“ اللہ تعالیٰ کی توحید‘ اس کی ثنا‘ تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔
محض دل میں ان کلمات کے ہونے کا کوئی معنی نہیں جب تک کہ زبان بھی دل کی ہمنوا نہ ہو۔
اور صرف زبان سے ادا کرنا اور دل کا بے خبر رہنا‘ اس سے بھی کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
جب دل اور زبان ہم آہنگ ہوں اور ایک دوسرے کے ہمنوا ہوں تو مطلوب حاصل ہوتا ہے اور یہی اللہ کے ہاں مطلوب اور محبوب ہے۔
4.دعا اور ذکر میں طلب کا فرق ہے۔
دعا میں طلب ہوتی ہے جب کہ ذکر میں نہیں۔
5. دعا کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی الوابل الصیب اس سلسلے میں بہترین کتاب ہے۔
اہل ذوق اس کی طرف رجوع فرمائیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1332
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3329
´سورۃ القیامہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تو جلدی جلدی زبان چلانے (دہرانے) لگتے تاکہ اسے یاد و محفوظ کر لیں، اس پر اللہ نے آیت «لا تحرك به لسانك لتعجل به» ”اے نبی!) آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں“ (القیامۃ: ۱۶)، نازل ہوئی۔ (راوی) اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، (ان کے شاگرد) سفیان نے بھی اپنے ہونٹ ہلا کر دکھائے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3329]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے نبی! آپ قرآن کوجلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (القیامة: 16)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3329
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:537
537- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوا تھا تو آپ اس کو یاد رکھنے کے لئے اپنی زبان کو اس کے ساتھ حرکت دیا کرتے تھے اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: «لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ» ”تم اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو، تاکہ تم اسے جلدی حاصل کر لو اس کو جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہمارے ذمہ ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:537]
فائدہ:
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید اترتے وقت بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتے جاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ﴾ [75-القيامة:16] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہمارے ذمے ہے، اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام آپ سلام کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کان لگا کر سنتے رہتے، جب وہ چلے جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح پڑھ لیتے جیسے جبرائیل علیہ السلام نے پڑھا تھا۔ [صحيح البخاري: 5]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 537
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1005
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اپنی زبان نہ ہلائیں۔ کے بارے میں روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وحی کے نزول سے بہت مشقت برداشت کرتے تھے، آپﷺ (وحی کے اخذ کے لیے) اپنے ہونٹ ہلاتے تھے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے مجھے کہا، میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی طرح ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں، اور سعید نے اپنے شاگرد کو کہا، میں اپنے ہونٹوں کو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی طرح تمہیں ہلا کر دکھاتا ہوں، پھر اپنے ہونٹ ہلائے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1005]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ:
مِمَّا كَثِيْرًامَّّا،
بہت کے معنی میں ہے،
یا یہ مقصد ہے کہ زبان کو حرکت دینا،
آپﷺ کا معمول اور عادت بن گیا تھا۔
(2)
يُعْرَفُ ذَالِكَ مِنْهُ:
وحی کی شدت کے آثار آپﷺ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتے تھے،
اور آپ کی مشقت محسوس ہو جاتی تھی۔
(3)
يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً:
وحی کے نزول سے آپﷺ کو سختی جھیلنی پڑتی،
اور آپﷺ اس کی مشقت برداشت کرتے۔
(4)
اسْتَمِعْ وَأَنْصِتْ:
كان لگاؤغور سے سنو،
اور سکوت(خاموشی)
اختیار کرو۔
فوائد ومسائل:
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید سننے کی ہدایت وتلقین فرمائی گئی ہے اسی طرح آپﷺ کی امت کو بھی یہی تلقین کی گئی ہے کہ وہ قرآن مجید کو بغور سنے،
اس لیے قراءت قرآن کی مجالس میں پوری یکسوئی سے دل لگا کر قرآن مجید سننا چاہیے اور جہاں لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوں اور قراءت کی طرف توجہ نہ کر سکتے ہوں وہاں سپیکر لگا کر بلند آواز سے قراءت کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1005
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5
5. حضرت ابن عباس ؓ فرمان الہٰی: ”(اے پیغمبر!) آپ وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نزول وحی کے وقت بہت مشقت برداشت کرتے تھے۔ اور آپ (اکثر) اپنے لب مبارک کو حرکت دیا کرتے تھے.... حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں آپ کے سامنے اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ ہلاتے تھے۔ (آپ کے شاگرد) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو ہلاتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے.... (حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ”(اے نبی!) اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہماری ذمے داری ہے۔“ یعنی آپ کے سینے میں محفوظ کر دینا اور پڑھانا ہمارا کام ہے۔ پھر ارشاد الہٰی: ”چنانچہ جب ہم پڑھ چکیں تو ہمارے پڑھنے کی پیروی کرو۔“ کی تفسیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ روایت پہلی روایت کا تتمہ ہے جسے ایک دوسری سند سے بیان کیاگیا ہے۔
پہلی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک حضرت عروہ کے واسطے سے پہنچتی ہے جبکہ اس روایت کی سند حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتی ہے۔
پہلی روایت میں ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ عروہ بن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بندش وحی تک کا واقعہ بیان کیاتھا اور اس روایت میں بواسطہ ابوسلمہ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کانتیجہ ذکر کیاہے۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جہاں تفرد وخفا کی وجہ سے حدیث میں شک وشبہ یاتردد کا اندیشہ ہو وہاں الفاظ حدیث کی تائید میں مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔
اسے محدثین کی اصطلاح میں متابعت کہا جاتاہے۔
اس کی دو قسمیں ہیں:
ایک متابعت نامہ اوردوسری متابعت ناقصہ یا قاصرہ۔
جب راوی کسی دوسرے کی موافقت کرتے وقت اسی استاد سے بیان کرے جس سے پہلا راوی بیان کررہا ہے تو یہ متابعت تامہ ہوگی۔
قور اگر دوران سند میں دادا استاد یا اس سے اوپر موافقت ہوتو وہ متابعت قاصرہ ہوگی۔
یہاں بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان فرمائی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر کے علاوہ عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح عبداللہ بن صالح کا اس روایت کو بیان کرنا متابعت تامہ ہے اور ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے عقیل کے علاوہ ہلال بن رداد کا اس روایت کی تخریج کرنا متابعت ناقصہ ہے۔
پھر آپ نے یونس اور معمر کے حوالے سے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے کہ ان دونوں نے ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے فؤاده كے بجائے بوادره بيان كيا ہے۔
بوادر،بادرہ کی جمع ہے۔
اس سے مراد گردن اور کندھے کا درمیانی حصہ ہے جو شدت خوف کے وقت اسی طرح پھڑکنے لگتا ہے جیسے دل کانپتا ہے۔
گویا دونوں روایتیں اصل معنی کے اعتبار سے برابر ہیں۔
کیونکہ دونوں ہی گھبراہٹ پر دلالت کرتی ہیں۔
3۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وحی(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔
۔
۔
۔
۔
)
ہے جبکہ حدیث سابق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی وحی(اقْرَأْ بِاسْمِ۔
۔
۔
۔
۔
)
ہے۔
دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔
۔
۔
۔
۔
)
اس اعتبار سے پہلی وحی ہے کہ بندش وحی کے بعد دوبارہ وحی کے نزول کا آغاز سورہ مدثر سے ہوا،یعنی پہلی وحی(اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ)
کے بعد وحی کا سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہوگیاتھا۔
4۔
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمبل اوڑھانے کا مطالبہ کیا۔
اس کی وجہ شاید آپ کی گھبراہٹ تھی جس کی وجہ سے آپ پر کپکپی طاری ہوئی اور آپ نے اہل خانہ سے کپڑا اوڑھادینے کی فرمائش کی کیونکہ بسا اوقات گھبراہٹ سے بھی کپڑا اوڑھا جاتا ہے۔
اور ایسا صرف پہلی بار ہوا۔
بعد ازاں جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو بوجھ پڑنے سے آپ کو سخت پسینہ آجاتا لیکن گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ آپ کپڑا اوڑھانے ہی کا مطالبہ کرتے تھے۔
5۔
(حَمِيَّ الوَحيُ)
کے لغوی معنی ہیں:
"وحی گرم ہوگئی۔
"جب کوئی چیز گرم ہوجائے تو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔
تو(تَوَاتَرَا)
کے لفظ سے یہ اشتباہ ختم ہوگیا،یعنی وحی کامعاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ تسلسل کے ساتھ اس کا آغاز ہوگیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4927
4927. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ (اس کو یاد کرنے کے لیے) اپنی زبان کو حرکت دیا کرتے تھے۔ سفیان نے بیان کیا کہ آپ کا مقصد اس وحی کو یاد کرنا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ”آپ قرآن کو جلدی یاد کر لینے کی نیت سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4927]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لاتے تو آپ زبان اور لب ہلاتے رہتے کہ کہیں ایسانہ ہو کوئی آیت بھول جائے۔
اس سے آپ پر بہت سختی ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔
2۔
یہ حکم پہلے بھی دیا جا چکا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”آپ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری ہو جائے۔
“ (طٰه: 20۔
114)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرشتے کے ساتھ اس طرح جلدی جلدی پڑھنے سے منع فرما دیا۔
آپ جلدی اس لیے کرتے تھے کہ وحی الٰہی کا کوئی لفظ بھول نہ جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ضمانت دی کہ آپ کے سینے میں اس کا جمع کر دینا اور آپ کی زبان پر اس کی قراءت کو جاری کر دینا ہماری ذمے داری ہےآپ کا کام یہ ہے کہ اس دوران میں آپ خاموشی سے سنا کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4927
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4929
4929. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے (لَا تُحَرِّكْ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِۦٓ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت جبرئیل ؑ جب وحی لے کر آتے تو رسول اللہ ﷺ اسے یاد کرنے کے لیے اپنی زبان اور ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ اس سے آپ کو بڑی دشواری پیش آتی اور یہ دشواری، آپ سے پہچانی جاتی تھی، اس پراللہ تعالٰی نے وہ آیات اتاری جو (لَآ أُقْسِمُ بِيَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ) میں ہے کہ ”آپ جلدی کرتے ہوئے زبان کو نہ ہلایا کریں۔ اس کا آپ کے سینے میں ج دینا اور اسے پڑھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ (فَإِذَا قَرَأْنَـٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْءَانَهُ)ۥ کا مطلب ہے کہ جب ہم قرآن کو اتار رہے ہوں تو آپ غور سے سنا کریں۔ (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)ۥ کا مطلب ہے کہ ہم آپ کی زبان کے ذریعے سے اس کی وضاحت کرا دیں گے۔ اس کے بعد آپ کی عادت مبارک یہ تھی کہ جب بھی حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آتے تو آپ سر جھکا کر بیٹھ جاتے۔ جب وہ چلے جاتے تو اللہ تعالٰی کے وعدے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4929]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کریم کے الفاظ ہی کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا بلکہ قرآن کے بیان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے جیسا کہ اس آیت میں صراحت ہے۔
(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)
کیونکہ اگر قرآن کے بیان کی حفاظت نہ کی جائے تو الفاظ کی حفاظت کا کوئی فائدہ نہیں ہے نیز واجب الاتباع ہونے پر قرآن اور اس کے بیان یعنی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی فرق نہیں ہے۔
قرآن کا بیان حسب ذیل صورتوں میں ہے۔
مشکل مقامات کی تشریح جلال و حرام کی وضاحت مجملات کی تفصیل عمومات کی تخصیص مبہات کی توضیح، یہ سب کام بیان میں شامل ہیں۔
اسے حدیث کہا جاتا ہے۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی ہوئی اور ان کی بنیاد بھی وحی الٰہی پر ہے۔
اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ ہم نے اپنی تالیف ”عظمت حدیث اور حجیت حدیث“ میں بیان کیا ہے جسے دارالسلام نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے شائع کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4929
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7524
7524. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ نبی ﷺ نزول وحی کے وقت شدت محسوس کرتے تھے اور اپنے ہونٹ ہلاتے تھے۔ میں تمہیں ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ انہیں حرکت دیا کرتے تھے۔ (راؤی حدیث) سیدنا سعید بن جبیر نے کہا: میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جیسے میں نے سیدنا ابن عباس ؓ کو ہونٹ ہلاتے دیکھا تھا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس ؓ کہتے ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اس (وحی) کو آپ کے دل میں جمع کرنا اور زبان سے پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے۔“ یعنی تمہارے سینے میں قرآن کا ج دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ ”پھر جب اس کو پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جبریل کے پڑھتے وقت کان لگا سنتے رہیں اور خاموش رہیں یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ قرآن اسی طرح پڑھیں گے۔ سیدنا ابن عباس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7524]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی الفاظ جو ہمارے منہ سے نکلتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جو مخلوق ہے اور قرآن کریم جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے یعنی تلاوت اور مَتلُو میں فرق واضح کیا ہے۔
اس سے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ قاری کو قراءت بھی قدیم ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن کے ساتھ زبان کی حرکت قاری کا فعل ہے جو مخلوق اور حادث ہے اور جوپڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے جیسا کہ اللہ کریم کا ذکر کرتے وقت زبان کا حرکت کرنا بندے کا فعل اور حادث ہے اور جس کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ وہ قدیم ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔
آئندہ تراجم میں بھی اسی مقصد کو بیان کیا جائے گا۔
(فتح الباري: 623/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7524