مشكوة المصابيح
كِتَاب الْعِلْمِ
علم کا بیان
لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں
حدیث نمبر: 274
وَعَن حُذَيْفَة قَالَ: يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا وَإِنْ أُخِذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا لَقَدْ ضللتم ضلالا بَعيدا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے قراء کی جماعت! سیدھی راہ پر ثابت قدم رہو، اس لیے کہ تم سب سے آگے ہو، اور اگر تم دائیں بائیں چلے گئے تو تم بہت دور گمراہی میں چلے جاؤ گے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (7282)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 274 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 274
فقه الحديث:
➊ اپنے آپ کو ہمیشہ دنیاوی لالچ اور مبتدعین کی بدعات سے دور رکھنا چاہئے۔
➋ سلف صالحین والے راستے پر چلنے میں ہی نجات ہے۔
➌ ہمیشہ نصیحت، تربیت اور اپنی اصلاح کا اہتمام کرنا چاہئے۔
➍ ضرورت کے تحت کسی گروہ کا نام لے کر اصلاح کی جا سکتی ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 274
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7282
7282. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اے قراء کی جماعت! سیدھی راہ اختیار کرو تو تم بہت آگے بڑھ جاؤ گے اور اگر تم دائیں بائیں راستہ لو گے تو بہت دور کی گمراہی میں پڑجاؤ گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7282]
حدیث حاشیہ:
یعنی ان لوگوں سے کہیں افضل ہو گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔
یہ ترجمہ اس وقت ہے لفظ حدیث فقد سبقتم بہ صیغہ معروف ہو اگر بہ صیغہ مجہول سبقتم ہو ترجمہ یہ ہو گا کہ تم حدیث اور قرآن پر جم جاؤ کیونکہ دوسرے لوگ حدیث اور قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔
تم سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں یعنی دور نکل گئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7282
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7282
7282. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اے قراء کی جماعت! سیدھی راہ اختیار کرو تو تم بہت آگے بڑھ جاؤ گے اور اگر تم دائیں بائیں راستہ لو گے تو بہت دور کی گمراہی میں پڑجاؤ گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7282]
حدیث حاشیہ:
1۔
قراء سے مراد کتاب وسنت کو جاننے والے ہیں۔
ابتدائے اسلام میں یہ اصطلاح علماء حضرات کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علماء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
تم صراط مستقیم کا اتباع کرو،دائیں بائیں مختلف طرق(راستوں)
کی طرف قطعاً توجہ نہ دوبصورت دیگر تم صراط مستقیم سے دورچلے جاؤگے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
\"بے شک یہی میرا راستہ سیدھا ہے،لہذاتم اسی پر چلتے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ چلو وہ تمھیں اللہ کے راستے سے جدا کردیں گے۔
\"(الانعام 6/153)
2۔
اس حدیث میں صراط مستقیم پر چلتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں منحصر ہےاس کے علاوہ جتنے بھی راستے ہیں وہ سب ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7282