مشكوة المصابيح
كِتَاب الْعِلْمِ
علم کا بیان
قرآنی علم کی تین اقسام
حدیث نمبر: 240
وَعَن عَوْف بن مَالك الْأَشْجَعِيّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَقُصُّ إِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَو مختال» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”امیر یا جسے وہ اجازت دے وہی خطاب کرنے کا مجاز ہے یا پھر متکبر شخص وعظ کرتا ہے۔ “ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (3665)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 240 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 240
تحقیق الحدیث:
اس کی سند حسن ہے۔
اس روایت کی اور بھی کئی سندیں اور شواہد ہیں، جن کے ساتھ یہ صحیح لغیرہ ہے۔
فقه الحدیث:
➊ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ کلام کرنے والے تین قسم کے لوگ ہیں:
مذکّر، واعظ اور قصہ گو۔
مذکّر وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی نعمتیں یاد دلائے اور مطالبہ کرے کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔
واعظ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے تاکہ وہ گناہوں سے بچ جائیں۔
قصہ گو وہ ہے جو لوگوں کے سامنے اسلاف کے قصے بیان کرے اور ان میں کمی بیشی کا خطرہ ہو۔ [معالم السنن للخطابي ج4 ص188، ملخصاً]
➋ روایت مذکورہ میں امیر سے مراد مسلمان حاکم اور صاحب اقتدار ہے۔ دیکھئے: [الكاشف عن حقائق السنن] یعنی [شرح الطيبي 1؍437] اور [مرقاة المفاتيح 1؍502]
◄ عون المعبود میں ہے:
«إلا أمير أى حاكم»
”سوائے امیر کے یعنی حاکم کے۔“ [3؍362]
↰ معلوم ہوا کہ اس حدیث میں کاغذی جماعتوں کے کاغذی اور خود ساختہ امیر مراد نہیں ہیں بلکہ شرعی حاکم صاحب اقتدار اور خلیفہ مراد ہے۔
◄ تکفیریوں اور خارجیوں کی ”جماعت المسلمین رجسٹرڈ“ ہو یا دوسری جماعتیں، یہ سب «ولا تفرقوا» کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل اور غلط ہیں، لہٰذا «فاعتزل تلك الفرق كلها» کی رو سے ان سے اجتناب ضروری ہے۔
➌ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث خطبے کے بارے میں ہے۔ ديكهئے: [شرح السنه للبغوي 1؍303 ح142]
➍ اس حدیث میں «لا» ممانعت نہیں بلکہ نفی وقوع اور خبر ہے یعنی عام طور پر یہ کام یہی تین لوگ کرتے ہیں۔ دیکھئے: [شرح الطيبي 1؍437]
➎ اس حدیث کا ایک حسن لذاتہ شاہد [مسند احمد 2؍178 ح6661] میں ہے۔
➏ اگر خلیفہ یا مسلمان حاکم موجود نہ ہو تو پھر «بلغوا عني ولو آية» اور دیگر دلائل کی رو سے صحیح العقیدہ اہلِ علم کے لئے وعظ ونصیحت اور خطبات بیان کرنا جائز بلکہ بہتر ہے۔
➐ سنن ابی داود کی حدیث مذکور کے راوی عباد بن عباد الخواص ثقہ تھے۔ دیکھئے میری کتاب: [نور العينين ص338]
➑ نیز دیکھئے: [سنن ابن ماجه 3753، اضواء المصابيح حديث: 241]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 240
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3665
´وعظ و نصیحت اور قصہ گوئی کے حکم کا بیان۔`
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”وعظ و نصیحت وہی کرتا ہے جو امیر ہو یا مامور ہو یا فریبی۔“ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3665]
فوائد ومسائل:
فائدہ: امیر پر واجب ہے۔
کہ اپنی رعیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خوب اشاعت کرے۔
اور ایسے باصلاحیت افراد مقرر کرے۔
جو کماحقہ یہ فریضہ سر انجام دے سکیں۔
ان کے علاوہ ایسے لوگ جن میں علم وفقہ کی صلاحیت نہ ہو ان کا از خود یہ منصب سنبھال لینا بالعموم فساد کا باعث ہو سکتا ہے۔
اور در حقیقت یہ مسئلہ اسلامیہ سے متعلق ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3665