مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
بدعتی لوگوں کی کیفیت
حدیث نمبر: 172
وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُدَ عَنْ مُعَاوِيَةَ: «ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَتَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لَا يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دخله»
احمد اور ابوداؤد میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے: ”بہترّ جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے ان میں یہ بدعات اس طرح سرایت کر جائیں گی جس طرح باؤلے کتے کا اثر کٹے ہوئے شخص کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے۔ “
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (4/ 102 ح 17061) و أبو داود (4597)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 172 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 172
تحقیق الحدیث
اس کی سند حسن ہے۔
یہ روایت سنن ابی داود و مسند أحمد کی طرح المستدرک للحاکم [1 128 ح443] میں بھی «ازهر بن عبدالله الهوزني الحرازي عن ابي عامر عبدالله بن لحي الخمصي عن معاويه بن ابي سفيان رضي الله عنه» کی سند سے موجود ہے۔
ابوعامر عبداللہ بن لحی ثقہ مخضرم تھے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 3562]
◄ مخضرم اس تابعی کو کہتے ہیں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہو مگر کسی وجہ آپ سے ملاقات نہ ہو سکی ہو، لہٰذا شرف صحابیت سے محروم رہے، گویا جماعت صحابہ سے کٹ کر جماعت تابعین میں شامل ہو گئے۔
◄ ازہر بن عبداللہ کے نسب میں بڑا اختلاف ہے انہیں ازہر بن عبداللہ، ازہر بن یزید اور ازہر بن سعید بھی کہا جاتا ہے۔ دیکھئے: [تهذيب الكمال 1 165]
◄ حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات میں انہیں ایک کے بجائے چار راوی بنا دیا ہے۔۔!
◄ ازہر بن عبداللہ کو امام عجلی وغیرہ جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے اور ان کا ناصبی ہونا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔
◄ جمہور محدثین جس کی توثیق کر دیں وہ راوی حسن الحدیث ہوتا ہے۔
فقہ الحدیث:
➊ امت اجابت (کلمہ گو مدعیان اسلام) میں تہتر [73] فرقے ہو جائیں گے جن میں سے بہتر جہنمی اور ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ یہ بات دوسری احادیث سے بھی ثابت ہے۔
➋ اہل بدعت اور بدعات کی مثال اس باؤلے کتے کی طرح ہے جو کسی کو کاٹ کر باؤلا اور پاگل کر دے۔
➎ گمراه فرقے جن کے عقائد کفريه و شرکیہ تھے، جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، جیسا کہ عام دلائل [مثلا سورہ النساء آيت: 48] سے ثابت ہے۔
➍ الجماعہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقائد و اعمال وغیرہ میں جماعت صحابہ کے موافق و مطابق ہیں۔ انہیں اہل سنت و جماعت اور اہل حدیث وغیرہ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ کتاب و سنت اور اجماع والے راستے پر گامزن تھے اور ہیں اور یہی طائفہ منصورہ ہیں۔
➎ امت میں بدعات، شرک اور کفر کے وقوع، ظہور اور رونما ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بات اپنی پیش گوئی کے مطابق واقع ہو چکی ہے۔ «اعاذنا الله منها»
➏ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور وحی کے ذریعے سے بعض امور غیبیہ کی اطلاع فرمائی۔
➐ حدیث بھی وحی ہے۔
➑ اہل بدعت سے دور رہنا چاہیے تاکہ ان کی بیماری سے محفوظ رہیں۔
◄ امام ایوب السختیانی رحمہ اللہ نے جب ایک شخص کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا تھا:
«قوموا لا يعدينا بجربه»
”اٹھ جاؤ، یہ اپنی خارش (بیماری) ہمیں نہ لگا دے۔“
➒ اہل بدعت کے ساتھ کوئی محبت اور نرمی نہیں بلکہ ان سے نفرت اور بغض رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔
➓ اجماع حجت ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 172
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4597
´سنت و عقائد کی شرح و تفسیر۔`
ابوعامر عبداللہ بن لحی حمصی ہوزنی کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر کہا: سنو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”سنو! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے، بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے، اور یہ امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور یہی «الجماعة» ہے۔“ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایت میں اتنا مزید بیان کیا: ”اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو ۱؎۔“ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4597]
فوائد ومسائل:
1۔
ان احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور امت کے افراد کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔
2۔
الجماعة بمعنی اجتماع دراصل اسم مصدر ہے اور ایسی قوم کے لیے بو لاگیا ہے جو آپس میں ہر طرح اکھٹے اور مجتمع ہوں۔
اهل السنة والجماعة کا نام بھی اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ کتاب و سنت پر مجتمع ہیں اور ان میں ایسا افتراق نہیں ہے کہ ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے پھریں۔
شیخ جیلانی ؒ نے الجماعہ سے مراد جماعت صحابہ کے متبع لوگ بیان کیا ہے۔
کیونکہ صحابہ کے زمانے میں صرف اور صرف کتاب و سنت پر سب اکھٹے تھے۔
اہواء اور بدعات تو ایک طرف کسی فقہی مکتب فکر کا وجود بھی نہیں تھا۔
3۔
اهل السنة والجماعة وہی ایک فرقہ ہے جو بزبان رسالت نجات یافتہ ہے۔
جب لوگ تفرقے کے اسباب سے باز آجائیں تو ان میں اتفاق واتحاد آجاتا ہے اور پھر وہ الجماعة بنتے ہیں۔
تفرقہ کا بنیادی سبب اور سنت صحیحہ کو چھوڑ کر بدعات کی پیروی کرنا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4597