مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
سنت کو زندہ کرنے کا ثواب
حدیث نمبر: 168
وَعَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُورِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لَا يَرْضَاهَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ من أوزارهم شَيْئا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری کسی ایسی سنت کا احیا کیا، جسے میرے بعد ترک کر دیا گیا، تو اسے بھی، اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا اور ان ��ے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی، اور جس نے بدعت و ضلالت کو جاری کیا جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے، تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ “اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2677 وقال: ھذا حديث حسن) [و ابن ماجه: 209 ببعض الاختلاف وانظر الحديث الآتي: 169]
٭ فيه کثير بن عبد الله العوفي: ضعيف جدًا متھم بالکذب، ضعفه الجمهور و أخطأ من قواه.»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 168 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 168
تحقیق الحدیث
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔
اس روایت کی سند کا ایک بنیادی راوی کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جس کے بارے میں امام أحمد بن حنبل نے فرمایا:
”وہ کسی چیز کے برابر نہیں ہے۔“ الخ [كتاب العلل و معرفيه الرجال 3213ت 4922 ملخصا]
◄ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
«ليس بشئي» ”وہ کچھ چیز نہیں ہے۔“ [تاريخ عثمان بن سعيد الدارمي: 713]
ان کے علاوہ جمہور محدثین نے کثیر مذکور پر جرح کی ہے۔
◄ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں:
«وهو ضعيف عند الجمهور» ”اور وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“ [مجمع الزوائد68/6]
نيز ديكهئے مجمع الزوئد [130/6، 286] اور [فتح الباري 451/4، 19/5، 280/7]
◄ حافظ ابن حبان نے فرمایا:
”وہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے، اس نے اپنے باپ سے «عن جده:» دادا کی سند کے ساتھ ایک موضوع نسخہ بیان کیا ہے۔“ الخ [كتاب المجروحين221/2] نیز ديكهئے: [حدیث 167 سابق اضواء المصابیح 158]
وہ اس سخت ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 168
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 169
´سنت کو زندہ کرنے کا ثواب`
«. . . وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ . . .»
”. . . اس حدیث کو ترمذی نے اور ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمرو سے اور عمرو اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 169]
تحقیق الحدیث
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔
کثیر بن عبداللہ کے حالات ديكهيے کے لیے دیکھیے مشكوة المصابيح 168
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 169
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث209
´مردہ سنت کو زندہ کرنے والے کا ثواب۔`
عوف مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کیا، اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور اس سے عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی، اور جس کسی نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 209]
اردو حاشہ:
(1)
مردہ سنت سے مراد وہ ثابت شدہ شرعی عمل ہے جس کو لوگوں نے جہالت یا سستی کی وجہ سے ترک کر دیا ہو، خواہ وہ فرض و واجب ہو یا مستحب و مندوب۔
اور اسے زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دوبارہ معاشرے میں رواج دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ظاہر ہے کہ دعوت دینے والے کو خود بھی اس پر سختی سے عمل پیرا ہونا پڑے گا اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کرنی ہو گی۔
پھر جب لوگ اس پر تعجب کا اظہار کریں گے اور اس سے روکنے کی کوشش کریں گے تو اسقامت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔
(2)
اس روایت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو بدعات کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور مسلمانوں میں اسے رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اہل علم کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کا سخت مقابلہ کریں کیونکہ بدعت سنت کی مخالف ہے، جیسے جیسے بدعت رائج ہوتی ہے لوگوں کی توجہ سنت کی طرف سے ہٹتی چلی جاتی ہے، جس کے نتیجہ میں ایک وقت وہ آتا ہے کہ سنت مردہ ہو جاتی ہے، چنانچہ اسے زندہ کرنے کے لیے نئے سرے سے محنت کرنی پڑتی ہے، چنانچہ سنتوں کو قائم رکھنے کے لیے بدعتوں کی پرزور تردید کی ضرورت ہے۔
(3)
بعض ائمہ نے شواہد کی بنیاد پر اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 209
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث210
´مردہ سنت کو زندہ کرنے والے کا ثواب۔`
عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہو چکی تھی تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی ایسی بدعت ایجاد کی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے ہیں تو اسے اتنا گناہ ہو گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہو گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 210]
اردو حاشہ:
یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم جہاں تک مردہ سنت کے زندہ کرنے پر اجروثواب کا اور اسی طرح بدعت کے ایجاد کرنے پر سخت گناہ ملنے کا تعلق ہے، وہ دوسری احادیث سے بھی ثابت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 210
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2677
´سنت کی پابندی کرنے اور بدعت سے بچنے کا بیان۔`
عمرو بن عوف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث رضی الله عنہ سے کہا: ”سمجھ لو“ (جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”سمجھ لو اور جان لو“، انہوں نے عرض کیا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2677]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2677