مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
انکار حدیث کرنے والے
حدیث نمبر: 163
وَعَن الْمِقْدَام بن معدي كرب عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنه قَالَ: «أَلا إِنِّي أُوتيت الْكتاب وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ الله كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمُ لحم الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبع وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يُقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ» رَوَاهُ -[58]- أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى الدَّارِمِيُّ نَحْوَهُ وَكَذَا ابْنُ مَاجَهْ إِلَى قَوْلِهِ: «كَمَا حَرَّمَ الله»
سیدنا مقداد بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سن لو، مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل عطا کی گئی ہے، سن لو، قریب ہے کہ کوئی شکم سیر شخص اپنی مسند پر یوں کہے: تم اس قرآن کو لازم پکڑو پس تم جو چیز اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور تم جو چیز اس میں حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سن لو، پالتو گدھے، کچلی والے درندے اور ذمی کی گری پڑی کوئی چیز، الا یہ کہ وہ خود اس سے بے نیاز ہو جائے، تمہارے لیے حلال نہیں، اور جو شخص کسی قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالے تو ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی ضیافت کریں، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں، تو پھر اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضیافت کے برابر ان سے وصول کرے۔ “۔ دارمی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسی طرح ابن ماجہ نے ( «كما حرم الله» تک روایت کیا ہے۔اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4604) والدارمي (1/ 144 ح 592) و ابن ماجه (12) [وصححه ابن حبان، الموارد: 97]»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 163 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 163
تحقیق الحدیث
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
حافظ ابن حبان [الموارد: 97، الاحسان: 12، بسند آخر] نے اسے دوسری سند کے ساتھ روایت کر کے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے بنیادی راویوں کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:
① سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔
② عبدالرحمٰن بن ابی عوف رحمہ اللہ ثقہ (قابل اعتماد راوی) ہیں۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 3974]
③ حریز بن عثمان الحمصی الرحبی رحمہ اللہ ثقہ ثبت ہیں، ان پر ناصبیت کا الزام ہے۔ دیکھئے: [تقریب التہذیب 1184]
ناصبیت کا الزام ثابت نہ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
④ حریز بن عثمان سے ایک جماعت مثلاً یزید بن ہارون [مسند أحمد 131، 13٠/4 ح 17174] اور ابوعمر و عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار الحمصی وغیرہما نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
خلاصہ التحقیق:
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
فقہ الحدیث:
➊ ہمارے علم کے مطابق سب سے پہلے خوارج نے قرآن ماننے کا دعویٰ کر کے حدیث کا انکار کیا جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”اور وہ قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔“ [صحيح بخاري: 5058، صحيح مسلم: 1064]
یعنی خوارج نہ تو قرآن پر عمل کریں گے اور نہ قرآن کا مفہوم سمجھیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کو «كلاب النار» (جہنم کے کتے) قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 4؍382 ح19415، وسنده حسن]
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے خوارج کو «كلاب النار» کہا اور اسے مرفوعاً یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بیان کیا۔ [مسند أحمد 5؍453 ح22183 وسنده حسن، مسند أحمد 5؍250 ح22151] میں اس کا حسن شاہد بھی ہے۔
خوارج کی تقلید کرتے ہوئے روافض، معتزلہ، جہمیہ اور منکرین حدیث نے بھی صحیح احادیث کی حجیت کا انکار کیا اور قرآن کو رسول کے بغیر سمجھنے کا زبان حال سے دعویٰ کیا۔ یہاں یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ امت میں فتنہ انکار حدیث کی پیش گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنے کے وقوع سے پہلے کر دی تھی۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 4604 وسنده صحيح]
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حجت ہے۔
➌ گدھے اور درندے حرام ہیں۔
➍ مہمان کی میزبانی کرنا حسب استطاعت فرض ہے۔ نیز دیکھئے حدیث: [اضواء المصابيح 162]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 163
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث12
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: ”ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے“، تو سن لو! جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 12]
اردو حاشہ: (1) (أَرِيْكَة)
لغت میں اس چارپائی یا تخت کو کہتے ہیں جسے مزین کر کے رکھا گیا ہو۔
اہل عرب نئی دلہن کے لیے پردوں وغیرہ سے مزین کر کے جو چارپائی تیار کرتے تھے، اسے بھی (أَرِيْكَة)
کہتے ہیں۔
اس میں اشارہ ہے کہ حدیث کا انکار کرنا، بھرے پیٹ والے نازونعمت کے شیدائیوں کا کام ہے جو آراستہ پلنگ یا تخت پر ٹیک لگا کر بیٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
(2)
مولانا وحید الزمان خان رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ پیش گوئی عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، جو برصغیر پاک و ہند میں انکار حدیث کا فتنہ کھڑا کرنے والوں کا ایک سرغنہ تھا۔
مولانا فرماتے ہیں:
اس حدیث میں منکرین حدیث کے بانی عبداللہ چکڑالوی کی طرف بھی اشارات پائے جاتے ہیں، جو لفظ بلفظ پورے ہوئے۔
جن لوگوں نے عبداللہ چکڑالوی کو شیخ چٹو کے طویلے میں پلنگ پر تکیہ لگائے دیکھا ہے وہ آج بھی عینی شہادت دے سکتے ہیں کہ یہ حدیث لفظ بلفظ پوری ہو گئی۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مضمون وحی ہوتا تھا، ورنہ آپ کی پیش گوئی لفظ بلفظ پوری نہ ہوتی۔ (ترجمہ سنن ابن ماجہ از وحید الزمان خاں۔
حاشہ حدیث ہذا)
(3)
جس طرح قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اور قرآن مجید میں منع کیے ہوئے کاموں کا ارتکاب حرام ہے، اسی طرح حدیث سے بھی فرضیت اور حرمت ثابت ہوتی ہے۔
دونوں میں فرق کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
قرآن مجید میں بعض خواتین سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، مثلا ماں کی بہن، بیٹی وغیرہ، جبکہ حدیث سے خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام ثابت ہوتا ہے۔
ان دونوں کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔
اسی طرح نماز کے لیے کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیے جانے کی آیات نازل ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، کیونکہ اس وقت یوں ہی نماز ادا کرنا فرض تھا، حالانکہ یہ حکم قرآن مجید میں نازل نہیں ہوا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 12