Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا ایک منظر
حدیث نمبر: 152
‏‏‏‏وَعَن عبد الله بن عَمْرو قَالَ: هَجَّرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قَالَ: فَسَمِعَ أَصْوَاتَ رَجُلَيْنِ اخْتَلَفَا فِي آيَةٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِي -[55]- وَجْهِهِ الْغَضَبُ فَقَالَ: «إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ باختلافهم فِي الْكتاب» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں صبح سویرے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کہ کسی آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے کی حالت میں ہمارے پاس تشریف لائے غصے کے آثار آپ کے چہرے پر نمایاں تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی قومیں کتاب میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (2/ 2666)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 152 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 152  
تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 6776]

فقہ الحدیث:
➊ قرآن مجید کے بارے میں اپنی رائے سے ایسا اختلاف کرنا جائز نہیں ہے جس سے جھگڑا اور باہمی نفرت پیدا ہو بلکہ آیات کے مفہوم کو احادیث اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق حل کرنا، سمجھنا اور عمل کرنا چاہئیے۔
➋ آیات سے ایسا استدلال جو کفر و شرک یا بدعت کی طرف لے جائے حرام ہے۔
➌ کتاب و سنت کے منافی امور پر غیظ و غضب کا اظہار جائز ہے۔
➍ گمراہی کی اصل جڑ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی غلط تاویل کر کے سلف صالحین کے خلاف استدلال کیا جائے یا کتاب و سنت کا ہی انکار کر دیا جائے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 152   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 237  
´قرآن کریم کے مفاہیم پر اختلاف اور جھگڑے کی ممانعت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قوما - [80] - يتدارؤون فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ: " إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا: ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ ". رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه . . .»
. . . سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں سے سنا کہ وہ لوگ قرآن مجید میں اختلاف کرتے، ایک دوسرے کے خلاف دفع کرتے اور جھگڑا کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے زمانہ کے لوگ اسی وجہ سے برباد ہو گئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کے بعض حصے کو بعض حصے پر مارا۔ یعنی آیتوں میں تناقص اور تعارض پیدا کیا حالانکہ کتاب اللہ کا بعض حصہ بعض کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ تکذیب لہٰذا تم قرآن مجید کے بعض حصے سے بعض حصے کو نہ جھٹلاؤ، اور قرآن سے جتنا تم جانتے ہو اس کو بیان کرو اور جس کو تم نہیں جانتے اسے جاننے والے کے حوالے کر دو۔ اس حدیث کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 237]
تحقیق الحدیث:
مسند احمد کی سند ضعیف ہے۔
مسند احمد کی روایت میں امام ابن شہاب الزہری مدلس ہیں۔ دیکھئے: علل الحدیث لابن ابی حاتم [324/1 ح، 964]، شرح معانی الآثار للطحاوی [55/1] باب مس الفرج اور طبقات المدلسین لابن حجر [3/102] طبقہ ثالثہ
اور یہ روایت عن سے ہے، لہذا ضعیف ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور وہ تقدیر کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا یعنی اختلاف کر رہے تھے۔ غصے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا گویا کہ انار نچوڑ دیا گیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«بهذا أمرتم أو لهذا خلقتم؟ تضربون القرآن بعضه ببعض! لهذا هلكت الأمم قبلكم .»
کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے یا کیا تم اس کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟ تم قرآن کو ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہو! تم سے پہلے والی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔ الخ [سنن ابن ماجه بتحقيق الالباني ص31]
اس کی سند حسن ہے اور بوصیری نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [تسهيل الحاجه فى تحقيق سنن ابن ماجه قلمي ص6 ح86]

فقه الحدیث:
➊ تقدیر کے مسئلے میں اہل ایمان کا باہمی اختلاف جائز نہیں ہے۔
➋ کتاب اللہ کو ایک دوسرے سے ٹکرانا ہلاک شدہ امتوں (مثلاً یہود ونصاریٰ) کا وطیرہ ہے۔
➌ کتاب اللہ میں کوئی تعارض نہیں ہے اور اسی طرح قرآن و حدیث میں بھی کوئی تعارض نہیں ہے۔
➍ اگر مناسب نتیجہ نکلنے کی امید ہو تو کتاب وسنت کے منافی امور کا سختی سے رد کرنا بھی جائز ہے۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔
➏ کتاب و سنت کے خلاف امور میں مداہنت اور نرمی ناجائز ہے۔
➐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔
➑ کتاب و سنت کے خلاف امور پر غصہ آ جانا فطری اور قابل تعریف ہے۔
➒ شریعت اسلامیہ میں اہل ایمان کا باہمی اتحاد ہر حال میں ضروری ہے۔
➓ بطور فائدہ عرض ہے کہ «اختلاف أمتي رحمة» (میری امت کا اختلاف رحمت ہے) کے الفاظ سے جو روایت بیان کی جاتی ہے، اس کی کوئی سند کسی کتاب میں موجود نہیں، بلکہ یہ موضوع روایت ہے جس کا بیان کرنا حلال نہیں ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 237   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 99  
´مسئلہ تقدیر میں بحث و مباحثہ کی ممانعت`
«. . . ‏‏‏‏وروى ابْن مَاجَه فِي الْقدر نَحْوَهُ عَنْ عَمْرٍو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ . . .»
. . . اور ابن ماجہ نے اس کی مثل عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے شعیب کے دادا سے بیان کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 99]
تخریج:
[ابن ماجه 85]

تحقیق الحدیث:
ابن ماجہ والی روایت کی سند حسن ہے۔
اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ [المسند 2؍178]
بوصیری نے زوائد میں کہا ہے:
«هذا إسناد صحيح»
ابن ماجہ والی روایت کی سند کا متن یہ ہے:
(سیدنا) عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور وہ (صحابہ) تقدیر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ گویا غصے کی وجہ سے آپ کے چہرے پر انار نچوڑ دیا گیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے؟ کیا تم اس لئے پیدا کئے گئے ہو؟ تم بعض قرآن کو بعض سے ٹکرا رہے ہو۔ تم سے پہلی امتیں اس وجہ سے (بھی) ہلاک ہوئی ہیں۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کبھی یہ پسند نہیں کیا کہ میں آپ کی کسی مجلس میں پیچھے رہوں سوائے اس مجلس کے یعنی کاش میں اس مجلس میں نہ ہوتا۔
تنبیہ:
اس روایت کے راوی عمرو بن شعیب بالاتفاق ثقہ تابعی ہیں۔ جمہور محدثین کے نزدیک «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» والی سند صحیح، حسن اور حجت ہوتی ہے۔ دیکھئے: فتاویٰ ابن تیمیہ [18؍8] تہذیب السنن لابن القیم [6؍374] الترغیب والترہیب [875/4] نصب الرایہ 58/1] معارف السنن للبنوری الدیوبندی [315/3] محاسن الاصطلاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للبلقینی [ص481]
اور راقم الحروف کی کتاب الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریتہ [ص 37-34]
↰ عبدالرشید نعمانی دیوبند تقلیدی لکھتے ہیں:
اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو حجت مانتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔ [ابن ماجه اور علم حديث ص151]
↰ جمہور محدثین کی اس توثیق کے مقابلے میں بعض لوگوں کا اس سلسلہ سند پر جرح کرنا مردود ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ تقدیر کے بارے میں اختلاف کرنا اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرنا ممنوع ہے۔
➋ عقیدہ تقدیر پر ایمان واجب ہے اور کریدنے والے سوالات سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
➌ کتاب و سنت کے منافی کاموں پر غصے کا اظہار بالکل صحیح بلکہ شان ایمان ہے۔
➍ قرآن کو قرآن سے ٹکرانا (اور حدیث کو حدیث یا قرآن سے ٹکرانا) غلط و باطل ہے۔
➎ اختلاف برائے اختلاف جس میں اصلاح کی غرض ہو نہ مقصود علم تو ایسا اختلاف ہلاکت کے اسباب میں سے ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 99   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث85  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لیے پیدا کیے گئے ہو؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئی ہیں ۱؎۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 85]
اردو حاشہ:
(1)
تقدیر اسرار الٰہی میں سے ایک سِر (راز)
ہے، اس پر مجمل ایمان لانا کافی ہے، اسی طرح دوسرے غیبی امور کے بارے میں بھی جس قدر بتا دیا گیا، اسے مان لینا کافی ہے اور جس چیز کی وضاحت نہیں کی گئی، اس کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

(2)
قرآن و حدیث کی نصوص کی وضاحت اس انداز سے کرنی چاہیے کہ ان میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو، ورنہ امت میں اختلاف و افتراق پیدا ہوتا ہے اور قرآن و حدیث پر ایمان میں فرق آنے کا اندیشہ ہے۔

(3)
قرآن و حدیث کے مطالعے کا اصل مقصد اخلاق و عمل کی اصلاح ہے۔
اگر کوئی شخص محض زور خطابت کے اظہار کے لیے یا اپنے علم و فضل کا رعب جمانے کے لیے پیچیدہ مسائل میں مشغول ہوتا ہے، تو یہ اصل مقصد کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے۔

(4)
نصیحت کرتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے بعض اوقات غصے کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، خصوصا جب کہ نصیحت کرنے والا قابل احترام شخصیت کا حامل ہو اور سامعین پر اس کے غصے کا منفی اثر پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔

(5)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
کسی دوسرے صحابی نے انہیں یہ واقعہ سنایا، تاہم محدثین کے اصول کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث براہ راست سننے والے صحابہ کا نام نہ بھی لیا جائے لیکن اس سے سن کر روایت کرنے والا بھی صحابی ہو تو ایسی حدیث بالاتفاق صحیح ہوتی ہے کیونکہ تمام صحابہ عادل (قابل قبول اور قابل اعتماد)
ہیں۔

(6)
صحابی کو اس مجلس سے غیر حاضری پر اس لیے خوشی ہوئی کہ حاضرین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرمایا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مومن کو اگر نیکی کی توفیق مل جائے یا وہ کسی گناہ سے بچ جائے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا فخر و ریا میں شامل نہیں بلکہ نیکی کی محبت اور گناہ سے نفرت کی علامت ہے جو ایمان کا ایک حصہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 85   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6776  
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے جلدی حاضر ہوا یعنی صبح سویرے گیا تو آپ نے دوآدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک آیت کے بارے میں اختلاف کر رہے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس باہر تشریف لائے، آپ کے چہرے پر غصے کے آثار نظر آرہے تھے سو آپ نے فرمایا:"تم سے پہلے لوگ اپنی کتاب میں اختلاف کی بنا پر ہلاک ہوئے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6776]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قرآن مجید کی قراءت یا معانی میں ایسا اختلاف جس کی گنجائش نہ ہو،
یا ایسی تاویل جس کا کوئی قرینہ نہ ہو اور اس کی بنیاد پر نئے نئے مسائل اور عقائد نکالنا،
بدعملی اور انتشار و افتراق کا باعث بنتا ہے اور امت کی بدعملی،
اعمال و عقائد میں نئی نئی موشگافیاں اور امت میں افتراق و انتشار،
امت کی تباہی کا باعث بنتا ہے اور اس افتراق و اختلاف سے روکنا مقصود ہے،
دلیل کی بنیاد پر نظری اور علمی اختلاف مسائل کی تنقیح اور تہذیب کا سبب بنتا ہے،
فرقہ سازی اور گروہ بندی کا باعث نہیں بنتا،
اس لیے اس سے روکنا مقصود نہیں ہے،
مسائل میں اختلاف تو خیر القرون میں بھی موجود رہا ہے اور اس میں اختلاف نے ان میں گروہ بندی یا فرقہ بندی پیدا نہیں کی تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6776