مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
حدیث نمبر: 148
وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمًا فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنِي وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَاءَ النَّجَاءَ فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوا فَانْطَلَقُوا عَلَى مَهْلِهِمْ فَنَجَوْا وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ وَمثل من عَصَانِي وَكذب بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ»
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور جس چیز کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے اس کی مثال، اس شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور اس نے کہا: میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں واضح اور حقیقی طور پر آگاہ کرنے والا ہوں، لہذا تم جلدی سے بچاؤ کر لو، پس اس کی قوم کا ایک گروہ اس کی بات مان کر سرشام اطمینان کے ساتھ روانہ ہو گیا، اور وہ بچ گیا، جبکہ ان کے ایک گروہ نے اس شخص کی بات کو جھٹلایا اور اپنی جگہ پر ڈٹے رہے تو صبح ہوتے ہی اس لشکر نے ان پر دھاوا بول دیا اور انہیں مکمل طور پر ختم کر دیا، پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور میری لائی ہوئی شریعت کی اتباع کی، اور اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے حق کی تکذیب کی۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7283) و مسلم (16/ 2283)»
قال الشيخ الألباني: متفق عليه
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 148 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 148
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 7283]،
[صحيح مسلم 5954]
فقہ الحدیث:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔
➋ سچے راوی کی بیان کردہ خبر واحد حجت ہے۔
➌ تبلیغ دین کے لئے مثالیں بیان کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ان مثالوں سے کسی دینی حکم کی مخالفت نہ ہو۔
➍ قرآن و حدیث پر عمل نہ کرنے والے لوگ آسمانی عدالت اور اخروی زندگی میں تباہ و برباد ہوں گے اور (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) عذاب میں رہیں گے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 148
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5954
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری مثال اور اللہ نے جو کچھ مجھے دے کر بھیجا ہے، اس کی تمثیل اس آدمی کی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور انھیں کہا، اے میری قوم! میں نے اپنی دونوں آنکھوں (دشمن کا) لشکردیکھا ہے اور میں تمھیں کھلم کھلا ڈراتا ہوں، لہذا اپنی جان بچاؤ تو اس کی قوم کے کچھ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور رات کے شروع میں چل پڑے اور آہستہ آہستہ چلتے رہے ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5954]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
النذير العريان:
ننگا اور برہنہ ہو کر ڈرانے والا،
جاہلیت کے دور میں یہ رواج اور دستور تھا،
اگر کوئی انسان دور سے اپنی قوم کو کسی خطرہ سے آگاہ کرنا چاہتا تو اپنے کپڑے اتار کر،
ان کپڑوں سے اشارہ کرتا کہ خطرہ ہے،
تیار ہو جاؤ تو اس کے سچا ہونے کی دلیل ہوتی،
چونکہ رسول کی بات قطعی اور یقینی ہوتی ہے،
جس میں جھوٹ کا احتمال نہیں ہوتا،
اس لیے اس کو نذير عريان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(2)
النجاء:
یعنی اطلبوا النجاء:
نجات اور خلاصی کا طریقہ اختیار کرو،
اپنی راہ نجات تلاش کرو،
(3)
أدلجوا:
وہ سرشام چل پڑے،
رات بھر آہستہ آہستہ۔
علي مهلهم يا مهلتهم:
چلتے رہے اور دشمن کی دسترس سے نکل گئے۔
(4)
صبحهم الجيش:
لشکر نے صبح صبح سوئے سوئے حملہ کر دیا،
مقصد ہے دشمن اچانک حملہ آور ہو گیا اور ان کو مقابلہ یا تیاری کا موقعہ نہ دیا۔
(5)
فاجتاحهم:
ان کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیا،
یعنی سب کو تہس نہس کر دیا،
کوئی بھی نہ بچ سکا۔
فوائد ومسائل:
رسول،
قوم کے ہراول دستہ یا قوم کے نگران اور محافظ کی طرح اپنی امت کی نجات اور خطرات سے بچاؤ کا جذبہ رکھتا ہے اور ان کو ان تمام امور سے آگاہ فرماتا ہے،
جو ان کے لیے نقصان یا ہلاکت کا باعث بن سکتے ہیں،
اس لیے امت خطرات اور نقصانات سے تبھی محفوظ رہ سکتی ہے کہ وہ اپنے رسول کی ہدایات و تعلیمات پر عمل پیرا ہو،
وگرنہ وہ تباہی اور بربادی سے بچ نہیں سکتی،
آج کل سر کی آنکھوں سے اس حقیقت کا ہم نظارہ کر رہے ہیں،
لیکن عبرت پذیری اور سبق آموزی کا ملکہ مسخ ہو چکا ہے،
اس لیے خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5954
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6482
6482. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری مثال اور اس کی مثال جس کے ساتھ اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث کیا ہے اس آدمی کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں واضح طور ہر اس سے خبردار کرنے والا ہوں، لہذا اس سے بچنے کی فکر کرو اور اس سے بچو تو ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور راتوں رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر چلے گئے اور نجات پائی جبکہ دوسرے گروہ نے اسے جھٹلا دیا تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح کے وقت حملہ کرکے اچانک انہیں تباہ کر دیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6482]
حدیث حاشیہ:
یہ عرب میں ایک مثل ہوگئی ہے ہوا یہ تھا کہ کسی زمانہ میں دشمن کی فوجیں ایک ملک پر چڑھ گئی تھیں۔
ان ملک والوں میں سے ایک شخص ان فوجوں کو ملا انہوں نے اس کو پکڑا اور اس کے کپڑے اتار لئے وہ اسی حال میں ننگ دھڑنگ بھاگ نکلا اور اپنے ملک والوں کو جا کر خبر دی کہ جلدی اپنا بندوبست کر لو دشمن آن پہنچا، اس کے ملک والوں نے اس کی تصدیق کی چونکہ وہ برہنہ اور ننگا بھاگتا آ رہا تھا اور اس کی عادت ننگا پھر نے کی نہ تھی۔
باب کی مطابقت اس طرح سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرایا اور خبر دی کہ اللہ کا عذاب گنہگاروں کے لئے تیار ہے تو گناہوں سے توبہ کر کے اپنا بچاؤ کر لو پھر جس نے آپ کی بات مانی اسلام قبول کیا شرک اور کفر اور گناہ سے توبہ کی وہ تو بچ گیا اور جس نے نہ مانی وہ صبح ہوتے ہی یعنی مرتے ہی تباہ ہوگیا عذاب الٰہی میں گرفتار ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6482
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7283
7283. سیدنا ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میری اور جس دعوت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور اس سے کہا: اے قوم! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں واضح طور پر تمہیں ڈرانے والا ہوں لہذا تم بچاؤ کی کوئی صورت اختیار کرو۔ اس قوم کے ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں وہاں سے نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ پر چلے گئے اس لیے نجات پا گئے۔ ان میں سے دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا اور اپنی ہی جگہ موجود رہے تو لشکر نے صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کردیا اور ان کو تباہ وبرباد کردیا۔ یہ ہے مثال اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور جو میں اللہ کی طرف سے لایا ہوں اس کی اتباع کی اور اس شخص کی مثال بھی ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7283]
حدیث حاشیہ:
عرب میں قاعدہ تھا جب دشمن نزدیک آن پہنچتا اور کوئی شخص اس کو دیکھ لیتا اس کو یہ ڈر ہوتا کہ میرے پہنچنے سے پہلے یہ لشکر میری قوم پر پہنچ جائے گا تو ننگا ہو کر جلدی جلدی چیختا چلا تا بھاگتا۔
بعضے کہتے ہیں اپنے کپڑے اتار کر جھنڈے کی طرح ایک لکڑی پر لگاتا اور چلاتا ہوا بھاگتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7283
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6482
6482. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میری مثال اور اس کی مثال جس کے ساتھ اللہ تعالٰی نے مجھے مبعوث کیا ہے اس آدمی کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں واضح طور ہر اس سے خبردار کرنے والا ہوں، لہذا اس سے بچنے کی فکر کرو اور اس سے بچو تو ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور راتوں رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر چلے گئے اور نجات پائی جبکہ دوسرے گروہ نے اسے جھٹلا دیا تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح کے وقت حملہ کرکے اچانک انہیں تباہ کر دیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6482]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں میں یہ رواج تھا کہ لوگوں کو دشمن سے خبردار کرنے والا شخص اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جاتا اور کپڑوں کو اپنے سر پر گھماتا تھا، پھر اعلان کرتا کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے۔
(2)
حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں، جہنم سے بچنے کی فکر کرو۔
اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور تین دفعہ آواز دے کر فرمایا:
”میری اور تمہاری مثال اس قوم کی طرح ہے جنہیں دشمن سے خطرہ تھا کہ وہ اچانک حملہ کر دے گا۔
انہوں نے نگرانی کے لیے ایک آدمی کو بھیجا۔
اس نے ایک دن دیکھا کہ دشمن ان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے تو وہ فوراً وہاں سے بھاگا تاکہ اپنی قوم کو اس کی تیاری سے آگاہ کرے، ایسا نہ ہو کہ دشمن حملہ کر کے انہیں تباہ کر دے، چنانچہ وہ اپنے کپڑے اتار کر وہاں سے بھاگا اور اعلان کرنے لگا:
لوگو! اپنی فکر کر لو، اپنے بچنے کی تدبیر کر لو۔
“ (مسند أحمد: 248/5) (3)
بہرحال جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ سن کر گناہوں سے بچیں گے وہ جہنم سے بچ جائیں گے جبکہ گناہوں سے نہ بچنے والے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6482
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7283
7283. سیدنا ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میری اور جس دعوت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور اس سے کہا: اے قوم! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں واضح طور پر تمہیں ڈرانے والا ہوں لہذا تم بچاؤ کی کوئی صورت اختیار کرو۔ اس قوم کے ایک گروہ نے اس کی بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں وہاں سے نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ پر چلے گئے اس لیے نجات پا گئے۔ ان میں سے دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا اور اپنی ہی جگہ موجود رہے تو لشکر نے صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کردیا اور ان کو تباہ وبرباد کردیا۔ یہ ہے مثال اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور جو میں اللہ کی طرف سے لایا ہوں اس کی اتباع کی اور اس شخص کی مثال بھی ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق لے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7283]
حدیث حاشیہ:
1۔
عریان کے معنی ہیں:
برہنہ۔
عرب کے ہاں یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص دشمن کو دیکھتا اور اپنی قوم کو اس سے خبردار کرنا چاہتا تو کپڑے اتارکر انھیں سرکے اوپر سے گھماتا اور چیختا چلاتا ہوا قوم کو مطلع کرتا تاکہ لوگوں کو دور ہی سے معلوم ہو جائے کہ حالات خطرناک ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ اپنے کپڑے اتار کرجھنڈے کی طرح ایک لکڑی پر لگاتا اور چلاتا ہوا بھاگتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکار اور نافرمان لوگوں کو ایک مثال سے سمجھایا ہے۔
درحقیقت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ہیں وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اقتدا اور پیروی کرنے والے ہیں۔
2۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور مثال سے بھی لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ میری مثال اس جیسی ہے جس نے آگ روشن کی تو پروانے اس پر جمع ہوگئے اور آگ میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے جبکہ وہ انھیں آگ سے دوررکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس پرغالب آجاتے ہیں۔
میں تمہاری کمرے سے پکڑ پکڑ کر تمھیں جہنم سے دور کرتا ہوں لیکن تم لوگ ہوکہ اس میں گرتے جارہے ہو۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6483)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے اس قدر محبت اور ہمدردی تھی کہ اتنی محبت اور ہمدردی ماں کو اپنے شیر خوار بچے سے بھی نہیں ہوتی۔
۔
۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7283