Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
حدیث نمبر: 144
‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله يَقُول جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِم فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مثلا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ -[52]- دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يفقهها فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا فالدار الْجنَّة والداعي مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَمن أطَاع مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد أطَاع الله وَمن عصى مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد عصى الله وَمُحَمّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فرق بَين النَّاس. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کچھ فرشتے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ سو رہے تھے، انہوں نے کہا: تمہارے اس ساتھی کی ایک مثال ہے، وہ مثال ان کے سامنے بیان کر دو، ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں، جبکہ بعض نے کہا: بے شک آنکھیں سوئی ہوئی ہیں لیکن دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا: ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا، اس میں دسترخوان لگایا اور ایک داعی کو بھیجا، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا، اور جس نے داعی کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوا نہ دسترخوان سے کھانا کھایا، پھر انہوں نے کہا: اس کی (مزید) وضاحت کردو تاکہ وہ اسے سمجھ سکیں، پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا: آنکھ سوئی ہوئی ہے اور دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا: گھر، جنت ہے، داعی، محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ پس جس شخص نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (7281)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 144 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 144  
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 7281]

فقہ الحدیث
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا اصل میں قرآن مجید پر عمل کرنا ہی ہے۔
➋ انبیاء اور رسولوں کے خواب سچے ہوتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
➌ نیند کی حالت میں آپ کے دل کے بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا اور نہ آپ عام آدمی کی طرح غفلت کی نیند سوتے تھے۔
↰ یاد رہے کہ آپ کے علاوہ ہر انسان کا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: الترمذی [96 وسنده حسن وقال: هٰذا حديث حسن صحيح]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت فرض ہے۔
➎ لوگوں میں فرق اور جدائی کی وجہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول مانتے ہیں، قرآن و حدیث کو دین اسلام تسلیم کرتے ہیں، وہ ایک امت ہیں اور ان کے مقابلے میں سارے کفار (اور شدید مبتدعین) ایک ملت ہیں۔ حق و باطل کا یہ معرکہ اور اسلام و کفر کا مقابلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کا آنا اور ان کی یہ گفتگو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث بھی وحی ہے۔
➐ اس مثال کی تشریح بیان کریں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سمجھ جائیں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب نہیں تھے۔
➑ اگر کسی شخص میں اچھی خصلت ہو تو اس کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن خوشامد اور چاپلوسی جائز نہیں ہے۔
➒ یہ فرشتے کون تھے؟ ان کے نام معلوم نہیں ہیں۔ دیکھئے: فتح الباری [255/13]
↰ لیکن سنن الترمذی [2860] کی ایک منقطع روایت میں آیا ہے کہ یہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام تھے۔ امام ترمذی یہ روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ حدیث مرسل ہے۔ سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی۔‏‏‏‏ [مطبوعه دارالسلام 642]
◄ معلوم ہوا کہ روایت مذکورہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اس مسئلے میں سکوت بہتر ہے۔

تنبیہ:
جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام کے نام قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ [دیکھئے سورۃ البقرۃ: 98]
◄ اسرافیل علیہ السلام کا نام صحیح مسلم [770، دارالسلام: 1811] میں مذکور ہے، لیکن موت کے فرشتے (ملک الموت) کا نام عزرائیل کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
↰ وہب بن منبہ تابعی سے ایک موقوف (مقطوع) روایت میں یہ نام آیا ہے، لیکن اس کی سند میں محمد بن ابراہیم بن العلاء منکر الحدیث ہے۔ دیکھئے: [العظمة لابي الشيخ الاصبهاني 3؍848 ح394، 3؍900 ح439]
لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
↰ اشعث نامی کسی تبع تابعی سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
ملک الموت علیہ السلام کا نام عزرائیل ہے۔ [كتاب العظمة لابي الشيخ ج3 ص909 ح443 وسنده صحيح]
↰ اشعث تک سند صحیح ہے اور اشعث کے بارے میں شیخ رضاء اللہ بن محمد ادریس مبارکپوری لکھتے ہیں:
وہ اشعث بن اسلم العجلی البصری الربعی ہیں۔ [ايضا مترجما]
↰ اشعث بن اسلم رحمہ اللہ کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ثقة» [تاريخ يحييٰ بن معين، رواية الدوري: 3403، الجرح والتعديل لابن ابي حاتم 2؍269 وسنده صحيح]
↰ حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ [6؍63]
◄ معلوم ہوا کہ عزرائیل کا لفظ تبع تابعین کے دور سے ثابت ہے۔ «والله اعلم»
➓ اگر کسی عذر کی وجہ سے کسی شخص سے بلا واسطہ (ڈائرکٹ) بات کرنا ممکن یا مناسب نہ ہو تو خوش اخلاقی اور اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ذریعے سے اس شخص تک اپنی بات پہنچانا جائز ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 144   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7281  
7281. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: چند فرشتے نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ محو استراحت تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا: اس وقت آپ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا: ان کی صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے وہ مثال بیان کرو، کچھ فرشتوں نے کہا: وہ تو سو رہے ہیں۔ بعض نے کہا: نہیں صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا پھر لوگوں کی دعوت کے لیے کھانا تیار کیا اب ایک شخص کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو جس شخص نے اس بلانے والے کی بات مان لی وہ مکان میں داخل ہوگا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات نہ مانی تو وہ مکان میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھا سکے گا پھرانہوں نے کہا: اس مثال کی وضاحت کرو تاکہ وہ سمجھ لیں۔ بعض کہنے لگے: یہ سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7281]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں اور سنت نبوی ہی بہر حال مقدم ہے۔
امام استاد بزرگ سب کو ترک کیا جاسکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو مقدم رکھنا ہوگا‘ یہی نجات کا راستہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7281   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7281  
7281. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: چند فرشتے نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ محو استراحت تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا: اس وقت آپ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا: ان کی صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے وہ مثال بیان کرو، کچھ فرشتوں نے کہا: وہ تو سو رہے ہیں۔ بعض نے کہا: نہیں صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا پھر لوگوں کی دعوت کے لیے کھانا تیار کیا اب ایک شخص کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو جس شخص نے اس بلانے والے کی بات مان لی وہ مکان میں داخل ہوگا اور کھانا کھائے گا اور جس نے بلانے والے کی بات نہ مانی تو وہ مکان میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھا سکے گا پھرانہوں نے کہا: اس مثال کی وضاحت کرو تاکہ وہ سمجھ لیں۔ بعض کہنے لگے: یہ سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7281]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں۔
امام، استاد اور بزرگ کی بات کوچھوڑا جا سکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جاسکتا، نیز اس حدیث کا آخری حصہ بڑا معنی خیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کو بُرے سے الگ کرنے والے ہیں، یعنی مومن اور کافر، نیک اوربد، سعادت مند اور بدبخت کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والے ہیں۔
اس موضوع پر ہم کچھ تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال سے اس فرق کی وضاحت پیش خدمت ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جورکوع اورسجود کی صحیح ادائیگی کے بغیر نماز پڑھتا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کے وہ چالیس سال سے اس طرح نماز پڑھا رہا ہے تو آپ نے فرمایا:
اگر تیری اسی حالت پر موت آگئی تو وہ فطرت اسلام کے خلاف ہوگی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 791)
کیونکہ اس کی نماز سنت کے خلاف تھی، اس لیے کہ اس کی موت کو بی فطرت اسلام کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص سنت کے مطابق وضوکرے، پھرسنت کے مطابق صرف دورکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 160)
سنت پر عمل کرنے کی برکت سے صرف دورکعت ادا کرنا سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
سنت اور غیر سنت پر عمل کرنے میں یہی فرق ہے جو مذکورہ بالاحدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7281