Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
رنج و غم تقدیر کے تابع ہے
حدیث نمبر: 124
‏‏‏‏وَعَن أم سَلمَة يَا رَسُول الله لَا يزَال يصيبك كُلِّ عَامٍ وَجَعٌ مِنَ الشَّاةِ الْمَسْمُومَةِ الَّتِي أَكَلْتَ قَالَ: «مَا أَصَابَنِي شَيْءٌ مِنْهَا إِلَّا وَهُوَ مَكْتُوبٌ عَلَيَّ وَآدَمُ فِي طِينَتِهِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو زہر آلود بکری کھائی تھی اس کی وجہ سے آپ ہر سال تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس سے جو بھی تکلیف پہنچی ہے وہ تو میرے متعلق اس وقت لکھ دی گئی تھی جب آدم ؑ ابھی مٹی کی صورت میں تھے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (3546)
٭ أبو بکر العنسي مجھول کما قال ابن عدي وقال الحافظ ابن حجر في تقريب التهذيب: ’’و أنا أحسب أنه ابن أبي مريم الذي تقدم‘‘ و أبو بکر بن أبي مريم ضعيف مختلط.»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 124 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 124  
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
◄ اس کا راوی ابوبکر العنسی یا تو مجہول ہے جیسا کہ امام ابن عدی نے فرمایا ہے یا وہ ابوبکر بن ابی مریم العنسی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 7998]
◄ ابوبکر بن ابی مریم العنسی مشہور ضعیف روای ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب 7947] اور عام کتب اسماء الرجال۔

تنبیہ:
تقدیر پر ایمان لانا قرآن، حدیث اور سلف صالحین کے اجماع سے ثابت ہے۔ تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو ہوا، جو ہو رہا ہے اور جو ہو گا وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت میں ہے اور اس نے اسے تخلیق کائنات سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ رکھا ہے۔ جو شخص خیر والا راستہ اختیار کرے گا تو اللہ نے اس کے لئے اپنے فضل و کرم سے جنت تیار کر رکھی ہے اور جو شخص شر والا راستہ اختیار کرے گا تو اللہ نے اس کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے ہمیں جہنم سے بچائے اور جنت میں داخل فرمائے۔ (آمین)

◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:
«ومذهب السلف قاطبة أن الأمور كلها بتقدير الله تعاليٰ»
اور تمام (سلف صالحین) کا مذہب یہی ہے کہ تمام امور اللہ کی تقدیر سے ہیں۔ [فتح الباري 11؍478 تحت ح6594]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ»
بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے۔ [القمر: 49]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مشرکین قریش نے تقدیر کے بارے میں جھگڑا کیا تو یہ (درج بالا) آیت نازل ہوئی۔ [صحیح مسلم: 2656، دار السلام: 6752]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ»
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم کام کرتے ہو۔ [الصٰفٰت: 96]
اس آیت کی تشریح میں امام بخاری فرماتے ہیں:
پس اللہ نے خبر دی کہ تمام اعمال اور اعمال والے مخلوق ہیں۔ [خلق افعال العباد ص25 ح117]
تقدیر پر دیگر آیات کے لئے دیکھئے کتاب [الشريعة للآجري ص150 تا 172]
متواتر المعنیٰ احادیث سے عقیدہ تقدیر ثابت ہے۔
◈ امام مالک فرماتے ہیں:
«ما أضل من كذب بالقدر، لو لم يكن عليهم فيه حجة إلا قوله تعالىٰ: ﴿خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ﴾ لكفيٰ بها حجة»
تقدیر کا انکار کرنے والے سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں ہے، اگر تقدیر کے بارے میں صرف یہی ارشاد باری تعالیٰ دلیل ہوتا کہ اس نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن ہیں۔ [التغابن: 2] تو کافی تھا۔ [كتاب القدر للفريابي: 290 وسنده صحيح، الشريعة للآجري ص226، 227 ح508 وسنده صحيح]
◈ طاؤس تابعی فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک جماعت کو پایا ہے، وہ کہتے تھے، ہر چیز تقدیر سے ہے۔ [صحيح مسلم: 2655 وترقيم دار السلام: 6751]
◈ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوسہیل بن مالک سے پوچھا: تقدیر کے ان منکروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: میری یہ رائے ہے کہ انہیں توبہ کرائی جائے، اگر وہ توبہ کر لیں (تو ٹھیک ہے) ورنہ انہیں تہ تیغ کر دینا چاہئے۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: میری (بھی) یہی رائے ہے۔ [موطأ امام مالك 2؍900 ح1730 وسنده صحيح]
◈ قدریہ (تقدیر کے منکرین) کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، (اللہ کی) قسم، اگر وہ احد پہاڑ کے برابر (بھی) سونا خرچ کر دیں تو تقدیر پر ایمان لائے بغیر (اللہ کے ہاں) قبول نہیں ہوتا۔ [صحيح مسلم: 8، دار السلام: 93]
ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک بدعتی نے سلام بھیجا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ دیکھئے: [سنن الترمذي: 2152 وسنده حسن وقال الترمذي: هٰذا حديث حسن صحيح غريب]
◈ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
«العجز والكيس من القدر»
کمزوری اور ذہانت تقدیر سے ہے۔ [الشريعة للآجري ص213 ح448 وسنده صحيح]
اس طرح کے اور بھی بہت سے آثار ہیں جن سے تقدیر کا عقیدہ صاف ثابت ہوتا ہے۔
◈ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«من كفر بالقدر فقد كفر بالإسلام»
جس نے تقدیر کا انکار کیا تو اس نے اسلام کا انکار کیا۔ [الشريعه ص217 ح462 وسنده صحيح]
◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں قدریہ فرقے والوں پر لعنت بھیجتے تھے۔ [الشريعة ص223 ح492 وسنده صحيح]
◈ امام لیث بن سعد المصری نے تقدیر کے منکر کے بارے میں فرمایا کہ نہ اس کی بیمار پرسی کی جائے اور نہ اس کے جنازے میں شامل ہوں۔ [الشريعة للآجري ص227 ح509 وسنده صحيح]
➌ امام یحییٰ بن سعید القطان اور امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہما اللہ نے فرمایا:
«كل شيء بقدر» میں «بقدر» کا معنیٰ کتب وعلم ہے یعنی لکھا اور اسے علم ہے۔ [كتاب القدر للفريابي: 411 وسنده صحيح]
➍ امام اہل سنت ابوعبداللہ أحمد بن حنبل نے فرمایا:
«لا يصلي خلف القدرية والمعتزلة والجهمية»
قدریہ، معتزلہ اور جہمیہ (گمراہ فرقے والوں) کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ [كتاب السنه لعبدالله بن أحمد: 833 وسنده صحيح]
➎ فضل بن عیسیٰ الرقاشی نامی ایک قدری بدعتی شخص تھا، جس کے بارے میں امام ایوب السختیانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«لو ولد أخرس كان خيرا له»
اگر وہ گونگا پیدا ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا۔ [كتاب الضعفاء للبخاري: 306 وسنده صحيح، الجرح والتعديل 7؍64 وسنده صحيح]
یہ رقاشی ایک دن محمد بن کعب القرظی (تابعی) کے پاس آ کر تقدیر کے بارے میں کلام کرنے لگا تو امام قرظی نے اس سے کہا: (خطبے والا) تشہد پڑھ، جب وہ «من يهده الله فلامضل له ومن يضلل فلا هادي له» تک پہنچا تو انہوں نے اپنی لاٹھی اٹھا کر رقاشی کے سر پر ماری اور فرمایا: اٹھ جا (دفع ہو جا) پھر جب وہ چلا گیا تو آپ نے (اپنی بصیرت اور تجربے سے) فرمایا: یہ آدمی اپنی رائے سے کبھی رجوع نہیں کرے گا۔ [السنة لعبدالله بن أحمد: 962 وسنده صحيح]
➏ تقدیر کے بارے میں شیخ عبدالمحسن العباد المدنی نے بہترین بحث کی ہے، جس کا ترجمہ راقم الحروف نے کیا ہے اور وہ شرح حدیث جبریل کے نام سے چھپ چکا ہے۔
◄ مولانا محمد یحییٰ گوندلوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: تقدیر پر ایمان لانا فرضِ عین ہے، اس کا منکر بدعتی بلکہ بعض صورتوں میں دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتا ہے کیونکہ شریعت نے تقدیر پر ایمان کو فرض قرار دیا ہے۔ تو اس کے انکار کا مطلب شریعت کے اس پہلو کا انکار ہے۔
معنی قدر: تقدیر کا معنی کسی چیز کی حد بندی ہے، شرعی اصطلاح میں اس کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی ام الکتاب لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا۔ اس کا علم چیز کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے، کوئی چیز بھی اپنے وجود میں آنے سے پہلے اور بعد اس کے علم سے باہر نہیں، اس نے ہی پوری کائنات میں ہر ایک امر کو اس کے حدود واصول میں وضع کیا ہے، کوئی ایسا امر نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے خلق اور پیدائش سے پہلے ضبط اور لکھ نہ دیا ہو۔ [عقيده اهلحديث ص323]

تنبیہ:
شیخ ابوانس محمد یحییٰ بن محمد یعقوب گوندلوی رحمہ اللہ نومبر 1956ء کو گوندلانوالہ ضلع گوجرانوالہ (پاکستان) میں پیدا ہوئے اور 26؍جنوری کی رات 2009ء میں فوت ہوئے۔
تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے ماہنامہ ترجمان الحدیث فیصل آباد [ج42 شمارہ: 2] فروری 2009ء دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 124