Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
اولاد آدم کا بیان
حدیث نمبر: 118
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدم مسح ظَهره فَسقط من ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالَ هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَين عَيْنَيْهِ فَقَالَ أَي رب من هَذَا فَقَالَ هَذَا رجل من آخر الْأُمَم من ذريتك يُقَال لَهُ دَاوُدُ فَقَالَ رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمُرَهُ قَالَ سِتِّينَ سنة قَالَ أَي رب زده من عمري أَرْبَعِينَ سنة فَلَمَّا قضي عمر آدم جَاءَهُ ملك الْمَوْت فَقَالَ أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمُرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أولم تعطها ابْنك دَاوُد قَالَ فَجحد آدم فَجحدت ذُريَّته وَنسي آدم فنسيت ذُريَّته وخطئ آدم فخطئت ذُريَّته» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم ؑ کو پیدا کیا تو ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پشت سے وہ تمام روحیں، جنہیں اس نے ان کی اولاد سے روز قیامت تک پیدا کرنا تھا، نکل آئیں، اور ان میں سے ہر انسان کی پیشانی پر نور کا ایک نشان لگا دیا، پھر انہیں آدم ؑ پر پیش کیا تو انہوں نے عرض کیا: میرے پروردگار! یہ کون ہیں؟ فرمایا: تمہاری اولاد، پس انہوں نے ان میں ایک شخص کو دیکھا تو اس کی پیشانی کا نشان انہیں بہت اچھا لگا، تو انہوں نے عرض کیا، میرے پروردگار! یہ کون ہیں؟ فرمایا: داؤد ؑ، تو انہوں نے ع��ض کیا، میرے پروردگار! آپ نے اس کی کتنی عمر مقرر کی ہے؟ فرمایا: ساٹھ سال، انہوں نے عرض کیا: پروردگار! میری عمر سے چالیس سال اسے مزید عطا فرما دے۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب آدم ؑ کی عمر کے چالیس برس باقی رہ گئے تو ملک الموت ان کے پاس آیا تو آدم ؑ نے فرمایا: کیا میری عمر کے چالیس برس باقی نہیں رہتے؟ اس نے جواب دیا کیا آپ نے وہ اپنے بیٹے داؤد ؑ کو نہیں دیے تھے؟ آدم ؑ نے انکار کر دیا، اسی طرح اس کی اولاد نے بھی انکار کیا، آدم ؑ بھول گئے اور اس درخت سے کچھ کھا لیا، تو اب اس کی اولاد بھی بھول جاتی ہے، اور آدم ؑ نے خطا کی اور اس کی اولاد بھی خطا کار ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (3076 وقال: ھذا حديث حسن صحيح) [وصححه الحاکم 2/ 586]»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 118 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 118  
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم نے بھی صحیح کہا ہے۔ [حاکم 586/2]

فقہ الحدیث:
➊ اس روایت میں نور سے مراد ایمان کا نور اور فطرت سلیمہ ہے۔
➋ بھول جانا انسانی فطرت میں شامل ہے۔
➌ یہ حدیث سورۃ الاعراف کی آیت: 172 کی شرح میں ہے۔
➍ سیدنا داؤد علیہ السلام بہت خوبصورت تھے۔
➎ ہر جاندار کی عمر اتنی ہوتی ہے جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور جب موت کا مقرر وقت آتا ہے تو پھر اسے کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔
➏ لمبی زندگی سے محبت فطرت انسانی میں شامل ہے۔
➐ سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک جتنے بھی انسان ہیں وہ سب کے سب آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی اولاد ہیں یعنی سیدنا آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 118