مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
مسئلہ تقدیر پر تشکیک کفر کی علامت
حدیث نمبر: 115
وَعَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ وَقَعَ فِي -[41]- نَفْسِي شَيْء من الْقدر فَحَدثني بِشَيْء لَعَلَّ الله أَن يذهبه من قلبِي قَالَ لَو أَن الله عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مثل ذَلِك قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
سیدنا ابن دیلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ابی بن کعب کے پاس آیا تو میں نے انہیں کہا: میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہ سا ہے، پس آپ مجھے کوئی حدیث سنائیں، امید ہے اللہ اسے میرے دل سے دور کر دے، تو انہوں نے فرمایا: اگر اللہ عزوجل آسمان اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دینے میں ظالم نہیں ہو گا، اور اگر وہ ان پر رحم فرمائے تو ان کے لیے اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اور اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا حتیٰ کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ اور تم جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا وہ تم سے خطا نہیں ہو سکتا تھا اور کچھ تم سے خطا ہو گیا وہ تمہیں پہنچ نہیں سکتا تھا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر فوت ہو گئے تو تم جہنم میں جاؤ گے، ابن دیلمی بیان کرتے ہیں، پھر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح فرمایا: پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے اسی کی مثل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی۔ “ اس کو ابوداؤد، احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 182، 183 ح 21922 و 5/ 185 ح 21947 و 5/ 189 ح 21992) و أبو داود (4699) و ابن ماجه (77) [و البيهقي في کتاب القضاء والقدر (200) و صححه ابن حبان (الموارد: 1817)]»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 115 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 115
تخریج الحدیث:
[سنن ابي داود 4699]، [سنن ابن ماجه 77]
تحقیق الحدیث:
اس کی سند حسن ہے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [مسند أحمد 182/5 ح 21589]
اور اسحاق بن سلیمان الرازی وغیرہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
اس روایت کو ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ [الاحسان: 727، الموارد: 1817]
ابوسنان سعید بن سنان البرجمی الشیبانی حسن الحدیث ہیں، جمہور محدثین نے انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
فقہ الحدیث
➊ تقدیر پر ایمان لائے بغیر، قیامت کے دن نجات نہیں ہو گی۔
➋ صحابہ کرام کا یہ (اجماعی) عقیدہ تھا کہ تقدیر برحق ہے۔
➌ آدمی کو چاہئیے کہ وہ مسلسل تحقیق میں مشغول رہے اور جب بھی دلیل ملے تو اسے مضبوطی سے تھام لے۔
➍ ایک عالم سے مسئلہ پوچھنے کے بعد دوسرے عالم سے بھی مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے۔
➎ مرفوع حدیث کو بعض راویوں کے موقوف بیان کرنے سے مرفوع حدیث ضعیف نہیں ہو جاتی۔
➏ عقائد میں تمام اہل حق متحد ہیں۔ اختلاف تو صرف اجتہاد ی مسائل میں ہے۔
➐ اگر کسی آدمی کو اہل بدعت اپنی چرب زبانی کی وجہ سے شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں تو علمائے حق کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔
➑ سلف صالحین کا فہم وہ مشعل ہے جس کی وجہ آدمی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔
➒ علمائے حق کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلہ بیان کرتے وقت ضرور بالضرور دلیل بیان کریں، البتہ دلیل پوچھنے پر ٹال مٹول اور قیل و قال کے بجائے ضرور دلیل بتانی چاہیے اور افضل یہی ہے کہ مسئلہ دلیل کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ جو زندہ رہے وہ دلیل دیکھ کر جئے اور جو مرے وہ دلیل دیکھ کر مرے۔
➓ دلیل کے مقابلے میں ہر شخص کی بات مردود ہے، چاہے وہ کتنا بڑا مجتہد و امام ہی کیوں نہ ہو۔
⓫ اللہ تعالیٰ کے ہاں اہل بدعت کے اعمال مقبول نہیں ہیں، چاہے وہ کتنے ہی بڑے اعمال کیوں نہ ہوں۔
⓬ تقلید جائز نہیں ہے اور نہ علمائے حق سے مسئلہ پوچھنا تقلید ہے۔
⓭ اجماع شرعی حجت ہے۔
⓮ قرآن و حدیث سے دلوں کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔
⓯ بندے کو پہنچنے والا دکھ یا سکھ پہلے سے تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 115
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4699
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4699]
فوائد ومسائل:
دین وایمان کے مسائل میں حق الیقین حاصل کرنے کے لئے مختلف علمائے راسخین سے رجوع کرتے رہنا چاہیے۔
اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور جو شفا رسول ؐ کی احادیث مبارکہ میں ہے وہ اور کہیں نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4699
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث77
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے، اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کر دیں، چنانچہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور عرض کیا: ابوالمنذر! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہو جائے، لہٰذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 77]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے مسئلہ تقدیر کی وضاحت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے، اس لیے مخلوق کے بارے میں اس کا ہر فیصلہ حق ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُم يُسْـَٔلونَ﴾ \(الانبیاء: 23)
”وہ جو کچھ کرے، اس سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا اور ان (مخلوقات)
سے سوال کیا جائے گا (اور ان کا مواخذہ ہو گا۔)
“ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر اعتراض کرنا درست نہیں کیونکہ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ حکمت ہماری سمجھ میں بھی آجائے یا ہمیں بتائی بھی جائے۔
(2)
جو مصیبت آنی ہے وہ بہرحال آ کر رہے گی، خواہ انسان اس سے ڈرتے ہوئے نیکی کا راستہ چھوڑ کر غلط روی بھی اختیار کر لے۔
اور جو راحت اور نعمت قسمت میں ہے وہ بہرحال ملے گی، اگرچہ اس سے پہلے مشکلات و مصائب ہی کیوں نہ آئیں، اس لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کی رحمت کی امید رکھنی چاہیے، مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
ارشادا لٰہی ہے:
﴿إِنَّهُ لَا يَا۟يـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكـفِرونَ﴾ (یوسف: 87)
”اللہ کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر لوگ ہیں۔“
(3)
صحابہ کرام ؓ پختہ اور گہرے علم کے حامل تھے جس کی وجہ سے ان کا ایمان بھی کامل اور قوی تھا۔
تقیر جیسے بظاہر مشکل مسئلے میں انہیں وہ یقین و عرفان حاصل تھا، کس کی وجہ سے وہ اطمینان کی دولت سے مالا مال تھے اور اس بارے میں وہ شکوک و شبہات کا شکار نہیں تھے۔
(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے علم کا اعتراف کرتے تھے۔
علمائے دین کا بھی ایک دوسرے کےبارے میں یہی رویہ ہونا چاہیے۔
(5)
کسی مسئلے میں اطمینان قلب کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ علمائے کرام سے مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے۔
(6)
صحابہ کرام ؓ کے فتاویٰ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہوتے تھے بلکہ اکثر اوقات وہ ارشاد نبوی ہی نقل کر دیتے تھے، اگرچہ یہ صراحت نہ کریں کہ یہ ارشاد نبوی ہے۔
(7)
محدثین کے ہاں یہ اصول ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے تو حدیث کے مرفوع ہونے کی صراحت نہیں کی لیکن حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں۔
(8)
تقدیر کا یہ مسئلہ ایمان کے بنیادی مسائل میں سے ہے اور تقدیر پر ایمان لائے بغیر کسی انسان کا ایمان قابل اعتبار نہیں ہوتا، لہٰذا تقدیر کا انکار جہنم کی سزا کا باعث بن جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 77