مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
شیطان اور فرشتے کا انسان پر تصرف
حدیث نمبر: 74
وَعَن بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلشَّيْطَانَ لَمَّةً بِابْنِ -[28]- آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانَ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ من الله فليحمد اللَّهَ وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ثُمَّ قَرَأَ (الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ ويأمركم بالفحشاء) الْآيَة) أخرجه التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث حسن غَرِيب
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان ابن آدم کے دل میں خیال ڈالتا ہے اور فرشتہ بھی خیال ڈالتا ہے۔ رہا شیطان کا وسوسہ ڈالنا تو وہ شر اور حق کے جھٹلانے کا وعدہ دیتا ہے، رہا فرشتے کا خیال ڈالنا تو وہ خیر اور تصدیق حق کا وعدہ دیتا ہے، جو شخص اس طرح کا خیال محسوس کرے تو وہ جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، پس وہ اللہ کا شکر ادا کرے، اور جو شخص دوسرا خیال پائے تو وہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ “ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ”شیطان تمہیں مفلسی کا وعدہ دیتا ہے اور برے کام کی ترغیب و حکم دیتا ہے۔ “ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2988) [والنسائي في الکبري (11051 / التفسير: 71) و ابن حبان (الموارد: 40)]
٭ عطاء بن السائب اختلط و الراوي عنه بعد اختلاطه (انظر الکواکب النيرات وغيره) والحديث: أخرجه الطبري في تفسيره (3/ 59) بسند حسن عن عبد الله (بن مسعود) رضي الله عنه من قوله وھو الصواب و للموقوف شواھد وله حکم الرفع.»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 74 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 74
تخریج:
[سنن ترمذي 2988]
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اسے ترمذی [2988] کے علاوہ نسائی [الكبريٰ: 11051] اور ابن حبان [الاحسان: 993 دوسرا نسخه: 997] نے بھی روایت کیا ہے۔
اس روایت کے بنیادی راوی عطاء بن السائب آخری عمر میں حافظے کی خرابی کی وجہ سے اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ دیکھئے: [نهاية الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط 71] اور الکواکب النیرات [ص319]
◈ ابوحاتم الرازی نے کہا:
«اختلط بأخرة»
”وہ (عطاء بن السائب) آخر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔“ [علل الحديث 2؍242 ح2220]
عطاء بن السائب کے اختلاط سے پہلے درج ذیل راویوں نے ان سے روایت سنی ہے۔
① شعبہ
② سفیان الثوری
③ حماد بن زید
④ حماد بن سلمہ عند الجمہور
⑤ ہشام الدستوائی عند ابی داود
⑥ سفیان بن عیینہ
⑦ ایوب السختیانی
⑧ زہیر
⑨ زائدہ بن قدامہ
⑩ اعمش۔
دیکھئے: الکواکب النیرات مع الشرح [ص319 تا 335]
روایت مذکورہ کے راوی ابوالاحوص سلام بن سلیم کا عطاء بن السائب سے سماع قبل از اختلاط ثابت نہیں ہے۔
تنبیہ
①: سنن الترمذی کے قدیم قلمی نسخے میں «هٰذا حديث حسن غريب» لکھا ہوا ہے۔ دیکھئے: [ص194]
تنبیہ
②: یہ روایت بعض ضعیف سندوں سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ «والله اعلم»
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 74
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2988
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جو شخص یہ پائے ۱؎ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔ پھر آپ نے آیت «الشيطان يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء» ۲؎ پڑھی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2988]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کے دل میں نیکی بھلائی کے جذبات جاگیں تو سمجھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔
2؎:
شیطان تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے (البقرۃ: 268)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2988