مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
اہل عرب سے شیطان کی مایوسی
حدیث نمبر: 72
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِن الشَّيْطَان قد أيس أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَلَكِنَّ فِي التحريش بَينهم» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ جزیرہ عرب میں نمازی اس کی پوجا کریں، لیکن وہ انہیں آپس میں لڑانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (65/ 2812)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 72 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 72
تخریج:
[صحيح مسلم 7103]
فقہ الحدیث:
➊ یہ حدیث اس سلسلے میں بہت واضح ہے کہ صحابہ کرام شرک نہیں کریں گے اور واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ کسی صحابی سے بھی اسلام لانے کے بعد شرک ثابت نہیں ہے۔ «والحمدلله»
➋ اس حدیث میں صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں مثلاً جنگ جمل اور جنگ صفین کی طرف اشارہ ہے۔
➌ یہ کہنا کہ بعض امت مسلمہ میں یا جزیرہ عرب میں قیامت تک شرک واقع نہیں ہو گا، بے دلیل دعویٰ ہے، جس کے لئے بعض احادیث کے مفہوم میں رد و بدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد میں شرک کا وقوع ہو گا، مثلاً:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تقوم الساعة حتيٰ تضطرب أليات نساء دوس عليٰ ذي الخلصة.»
”اس وقت تک قیامت نہیں ہو گی جب تک دوس (قبیلے) کی عورتیں جسم مٹکاتے ہوئے ذوالخلصہ (قبیلہ دوس کے بت اور طاغوت) کا طواف نہیں کریں گی۔“ [صحيح بخاري: 7116 و صحيح مسلم: 2906]
↰ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جزیرہ عرب میں قیامت سے پہلے شرک کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ولا تقوم الساعة حتىٰ تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتىٰ تعبد قبائل من أمتي الأوثان»
”اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے (کچھ) قبائل مشرکوں سے نہ مل جائیں گے اور جب تک میری امت کے (کچھ) قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں گے۔“ [سنن ابي داود: 4252 وسنده صحيح]
↰ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ میں بعض لوگ شرک کریں گے۔
ایک صحیح روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ما أخاف عليكم أن تشركوا»
”مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے۔“ [صحيح بخاري: 1344 و صحيح مسلم: 2296]
اس حدیث کی تشریح میں:
◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:
«أي علىٰ مجموعكم، لأن ذلك قد وقع من البعض أعاذنا الله تعالىٰ»
”یعنی بالاجماع تم شرک نہیں کرو گے، کیونکہ اس (شرک) کا وقوع بعض (امتیوں) سے ہوا ہے۔ اللہ ہمیں پناہ میں رکھے۔“ [فتح الباري 3؍211]
◈ نووی نے کہا:
«وأنها لا ترتد جملة»
”اور بے شک وہ (امت) بالاجماع مرتد نہیں ہو گی۔“ [شرح صحيح مسلم للنووي، درسي نسخه ج2 ص250]
◈ عینی حنفی نے کہا:
«معناه عليٰ مجموعكم لأن ذلك قد وقع من البعض والعياذ بالله تعاليٰ»
”اس کا معنی یہ ہے کہ تم بالاجماع شرک نہیں کرو گے، کیونکہ اس (شرک) کا وقوع بعض سے ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔“ [عمدة القاري ج8 ص157]
◈ کرمانی نے کہا:
«وأنها لا ترتد جملة وقد عصمها من ذلك»
”اور وہ (امت) بالاجماع مرتد نہیں ہو گی اور یقیناً اس (اللہ) نے اسے محفوظ رکھا ہے۔“ [شرح صحيح البخاري للكرماني 7؍123 ح1346؍1267]
◈ قسطلانی نے کہا:
«أي ما أخاف علىٰ جميعكم الإشراك بل علىٰ مجموعكم لأن ذلك قد وقع من بعض»
”یعنی مجھے تم سب (امتیوں) کا بالاجماع شرک کرنے کا خوف نہیں، کیونکہ بعض لوگوں سے اس (شرک) کا وقوع ہوا ہے۔“ [قسطلاني شرح صحيح البخاري ج2 ص440]
◈ غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:
”یعنی آپ کو اس کا خدشہ نہیں تھا کہ پوری امت مشرک ہو جائے گی، سو بعض لوگوں کا مرتد ہو کر ہندو یا عیسائی ہو جانا اس حدیث کی پیش گوئی کے خلاف نہیں ہے۔“ [شرح صحيح مسلم ج6 ص738]
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ پوری امت کبھی بالاجماع شرک نہیں کرے گی۔ تاہم ایسا ہو گا کہ بعض امتی شرک کریں گے لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امت محمدیہ میں شرک واقع نہیں ہو گا، ان کا قول (صحیح بخاری، صحیح مسلم اور) سنن ابی داود کی صحیح حدیث اور شارحین حدیث کی تصریحات اور خود بریلوی تحقیقات کے بھی خلاف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [ماہنامہ الحدیث حضرو عدد 49 تا 56] میں شائع شدہ محترم ابوالاسجد محمد صدیق رضا حفظہ اللہ کا تحقیقی مضمون: ”امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور شرک“ اس مضمون کا مطالعہ بے حد مفید ہے اور اس سے دور جدید میں مبتدعین بریلویہ کے تمام شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ «والحمدلله»
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 72
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1937
´آپس میں بغض رکھنے کی مذمت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ مصلی اس کی عبادت کریں گے، لیکن وہ ان کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں رہتا ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1937]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ مسلمان مرتد ہوکر بت پرستی کریں گے،
اور شیطان کو پوجیں گے،
اس مایوسی کے بعد وہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے،
ان کے اندر بزدلی پیداکرنے،
جنگ وجدال اور فتنوں میں انہیں مشغول رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1937
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7103
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا،"بلا شبہ شیطان اس وقت اس سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی لوگ جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں لیکن وہ باہمی لڑائی کے لیے بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7103]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
التحريش:
بھڑکانا،
برانگیختہ کرنا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ عرب کے لوگ بت پرستی کی طرف کی لوٹ جائیں اور جزیرہ عرب پر کافروں کا تسلط و غلبہ ہو،
لیکن وہ ان کے درمیان فتنہ وفساد ڈالنا اور باہمی عداوت ودشمنی پیدا کرنے سے مایوس نہیں ہوا،
اس لیے باہمی فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے اور ان میں اختلاف وافتراق پیدا کرنے کے لیے پورا زور صرف کرتاہے،
اس لیے آج تک جزیرہ عرب میں بت پرستی نہیں ہوئی،
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوئی،
بت پرستی کے سوا،
شرک کی کوئی اور شکل بھی پیدا نہیں ہوگی،
لوگ نیک لوگوں یا انبیاء اور ملائکہ کے بارے میں کسی غلو کا شکار نہیں ہوں گے اور ان کی قبروں سے استمداد اور استغاثہ نہیں کریں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7103