Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ
حدیث نمبر: 70
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صِيَاحُ الْمَوْلُودِ حِينَ يَقَعُ نَزْغَةٌ من الشَّيْطَان»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب بچہ پیدائش کے وقت چیختا ہے تو اس کا یہ چیخنا شیطان کے کچوکے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (لم أجده، و له عنده طريق آخر بغير ھذا اللفظ: 4548) و مسلم (148/ 2367)»

قال الشيخ الألباني: متفق عليه

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 70 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 70  
تخریج:
[صحيح مسلم 6136]

فقہ الحدیث:
➊ اس روایت کی تشریح کے لیے دیکھئے مشكوة المصابيح حدیث 69۔
➋ یہ روایت صحیح بخاری میں نہیں ملی، بلکہ ہمارے علم کے مطابق صحیحین میں سے صحیح مسلم ہی میں موجود ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 70   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 69  
´ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے ہر ایک بچے کی پیدائش کے وقت شیطان اسے ضرور چھوتا اور چوکا مارتا ہے جس سے بچہ رونے اور چیخنے لگتا ہے۔ مگر مریم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے عیسٰی علیہ السلام کو شیطان ہاتھ نہیں لگا سکا اور نہ ان کو ایذا پہنچا سکا۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 69]
تخریج:
[صحيح بخاري 3431]،
[صحيح مسلم 6135]

فقہ الحدیث:
➊ پیدائش کے وقت (پیدا ہونے والے پر مکلف) شیطان اسے چھوتا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر بچہ چیخ اٹھتا ہے۔
➋ عمران کی بیوی اور مریم کی والدہ نے دعا کی تھی:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»
اور اے اللہ! میں اسے (مریم کو) اور اس کی ذریت کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ [آل عمران: 36]
اس دعا کی برکت سے اللہ نے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو شیطان کے لمس (چھونے) سے محفوظ رکھا۔ اسی طرح انبیاء اور اللہ کے برگزیدہ بندے اللہ کے فضل و کرم سے شیطان کے لمس سے محفوظ رہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ»
سوائے ان میں سے تیرے مخلص بندے۔ [الحجر: 40]
یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اللہ کے فضل وکرم سے شیطان کے چھونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 69   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4548  
´مریم علیہا السلام کی ماں نے کہا اے رب! میں اس (مریم) کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا"، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ سورة آل عمران آية 36 . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4548]

صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4548 کا باب: «بَابُ: وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے جسے حل کرنا انتہائی ضروری ہے:
مریم علیہاالسلام کی جس دعا کا ذکر آل عمران کی آیت مبارکہ میں ہے کہ:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [3-آل عمران:36]
یہ دعا تو مریم علیہا السلام کی والدہ نے مریم علیہا السلام کی پیدائش کے بعد کی تھی، لہٰذا وقت ولادت مریم علیہا السلام اور ان کی اولاد کو «مسس الشيطان» سے محفوظ رکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جبکہ حدیث کا متن وقت ولادت پر دلالت کرتا ہے اور آیت مبارکہ ولادت کے بعد دعا کرنے پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں علامہ ابوالفضل الالوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یعنی ممکن ہو کہ ولادت سے قبل یا ولادت کے وقت آپ کی والدہ نے دعا کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے سیدہ مریم علیہا السلام کو «مس الشيطان» سے محفوظ کر لیا۔ [روح المعاني: 132/2]
آلوسی صاحب کے بیان کے مطابق مریم علیہاالسلام کی والدہ نے ولادت سے قبل بھی دعا کی تھی اور ولادت کے بعد بھی لہٰذا اس تطبیق میں قرآن اور حدیث دونوں سے اعتراض رفع ہو جاتا ہے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت واضح طور پر قائم ہو جاتی ہے۔

علامہ زمحشری کا اعتراض حدیث پر اور اس کا جواب:
صاحب کشاف ابوالقاسم الزمخشری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ایک طعن وارد کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے اکثر علماء اور بسا اوقات یہ جانے بغیر کہ زمحشری کا مقام اہل علم کے نزدیک کیا ہے ان کے حوالے بغیر تحقیق کے نقل کرتے نظر آتے ہیں، علامہ زمخشری اپنی تفسیر میں حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ما من مولود يولد الا والشيطان يمسه حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان اياه الا مريم وابنها فالله اعلم لصحته فان صح فمعناه أن كل مولود يطمع الشيطان فى اغوائه الا مريم و ابنها، فانها كانا معصومين، وكذالك كل من كان......» [تفسير الكشاف: 385/1]
زمحشری صاحب کے ان بیانات سے واضح پتا چلتا ہے کہ آپ حدیث کے حقیقی معنی نہیں اخذ کر رہے ہیں، اسی لئے آپ نے روایت کی صحت میں توقف اختیار کیا ہے، (حالانکہ جو حدیث بخاری و مسلم میں اصول میں بیان ہو گی، وہ تمام غبار سے پاک ہو گی، یہ قاعدہ ضرور یاد رکھنا چاہیے) اور کہا ہے کہ یہ روایت صحیح اس وقت مانی جائے گی جب اس کے حقیقی معنی مراد نہ ہوں، لہٰذا انہوں نے معنی اخذ کرتے ہوئے اپنی رائے یوں دی کہ «مس الشيطان» سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش مراد ہے پیدائش کے وقت شیطان جب یہ کوشش کرتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے، بچہ اس وقت شیطانی وسواوس سے مانوس نہیں ہوتا، حالانکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں گمراہی قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی نہ عقائد کے اعتبار سے اور نہ ہی قول و عمل کے اعتبار سے۔
علامہ زمحشری نے حدیث کے حقیقی معنی کو اخذ کرنے سے پہلو تہی برتی ہے، جو حقیقتاً حدیث کے مفہوم سے روگردانی کے مترادف ہے اور مزید یہ کہ یہ عبارت بھی ان کے معتزلی ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ «فانهم! ولا تكن من الغافلين.»

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زمحشری کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والذي يقتضيه لفظ الحديث لا اشكال فى معناه ولا مخالفة لما ثبت من عصمة الانبياء بل ظاهر الخبر ان ابليس ممكن من مس كل مولود عند ولادته» [فتح الباري لابن حجر: 180/8]
یعنی حدیث جس لفظ کی طرف تقاضا کرتی ہے اس پر کسی قسم کا کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا، نہ ہی اس کے مطالب پر اور نہ ہی یہ مخالف ہے ان احادیث کے جس میں عصمت انبیاء ثابت ہے بلکہ ظاہری خبر یہ ہے کہ ابلیس ہر پیدا ہونے والے بچہ کوچھوتا ہے، جو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہوتے ہیں انہیں شیطان کا مس کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، اسی طرح مریم علیہاالسلام اور ان کی اولاد بھی اس کے مس سے محفوظ رہے، پس یہ توجیہ ہے خاص ہونے کی اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ مریم علیہاالسلام اور ان کے بیٹے کے علاوہ مخلصین پر شیطان کا تسلط ہو سکتا ہو۔

مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
زمحشری کا اعتراض فضول ہے، کیونکہ روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت شیطان چوکا مارتا ہے، اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ شیطان پوری عمر انسان کے چوکے مارتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 180/8]

امام قسطلانی رحمہ اللہ زمحشری کے اس اعتراض کے جواب پر فرماتے ہیں کہ:
شیطان کا مس کرنا ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مس کرنا گمراہ کرنے کے لیے ہے، (بلکہ اس سے حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے) اور اس حدیث کی صحت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس روایت کی تصحیح بخاری و مسلم نے کی ہے بغیر کسی قدح کے۔ [ارشاد الساري: 4233/8]
لہٰذا علامہ زمخشری نے حدیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دراصل فلاسفروں کا کام ہوتا ہے جس سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم وہی مطالب و معانی اخذ کریں گے جونصومي شریہ کے مطابق ہوں گے۔
قائدہ یاد رکھیں! قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید اور احادیث کے ذریعے کی جائے گی، اس میں پہلے اور دوسرے نمبر کا کوئی چکر نہیں ہے، دوسرے نمبر پر قرآن کی تفسیر صحابہ کے اقوال کے ذریعے ہو گی، یہی سب سے مفید قاعدہ ہے، بعد میں الفاظوں کی سمجھ اور معنی کے لغت کی طرف التفات کیا جائے، کیونکہ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے احادیث کافی و شافی کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا علامہ زمحشری یا پھر ان کی طرح دوسرے معتزلی کی تفاسیر دراصل فلاسفروں سے متاثر ہوا کرتی ہیں۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں،
مذکورہ حدیث صحاح میں مدون کی گئی ہے، لہٰذا (اس کے بعد) کسی فلاسفر کی طرف میلان اختیار کرنا درست نہیں اور ابن رومی کے قول سے اجتناب بھی واجب ہے۔ [ارشاد الساري: 4233/8]

محترم قارئین! ہر وہ تفسیر کی کتاب جس میں اہل سنت کے موقف کے خلاف لکھا گیا ہو اس سے بچنا ضروری ہے، معتزلہ ایک گمراہ کن فرقہ گزرا ہے، اس نے عقیدہ توحید، آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ میں کئی ایک تاویلات پیش کی ہیں، معتزلی عقائد کی تفصیل جاننے کے لیے ان حضرات کی تفاسیر معروف ہیں۔
➊ تفسیر عبدالرحمن بن کیسان الاصم شیخ ابراھیم بن اسماعیل بن علیّۃ، متوفی سنۃ 218 ھ۔ ھو: ابراھیم بن اسماعیل بن ابراھیم بن مقسم ابواسحاق البصری معروف علیہ احد المتکلمین [انظر تاريخ بغداد للخطيب: 22/6]
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں:
➋ ابوعلی الجبائی ھو: محمد بن عبد الوہاب، ابوعلی الجبائی شیخ المعتزلہ (توفی: 303 ھ) [انظر البدايه والنهايه لابن كثير: 125/11]
التفسیر الکبیر للقاضی عبد الجبار الھمزانی: ھو: عبد الجبار بن احمد الھمزانی القاضی ابوالحسن۔ (المعتزلی، متوفی: 410ھ) [انظر: العبر فى من غبر: 121/3]
➍ علی بن عیسىٰ الرمانی: ھو علی بن عیسى الدمانی النحوی المعتزلی ابوالحسن (متوفی 384 ھ) [انظر: سير اعلام النبلاء: 534/16]
الکشاف ابوالقاسم الزمحشری: ھو: محمود بن عمر الزمحشری المفسر النحوی (متوفی: 538ھ۔)

علامہ زمحشری کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
«صالح، لكنه داعية الي الا عتزال أجارنا الله، فكن حزرا من كشافة» [لسان الميزان: 651/6]
صالح تھا، لیکن اعتزال کی طرف داعی تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے اور (اے قاری) آپ بچو ان کی تفسیر کشاف (کے پڑھنے) سے۔

لہٰذا یہ چند حضرات ہیں، جنہوں نے اعتزال کو فروغ دیا ہے اور ان کا کام اکثر و بیشتر تفسیری حوالوں سے نقل کیا جاتا ہے چنانچہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان گمراہ کرنے والے لوگوں کی تفاسیر سے اجتناب کیا جائے اور صحیح العقیدہ مفسرین خصوصاً سلف میں جو صحیح العقیدہ مفسر گزرے ہیں، ان کی تفاسیر سے استفادہ کیا جائے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 65   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1072  
1072- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، شیطان اس کے کندھے کے اوپری حصے پر ٹہوکا دیتا ہے۔ صرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کیونکہ ان دونوں کو فرشتوں نے ڈھانپ لیا تھا۔ اگر تم چاہو، تو یہ آیت تلاوت کرلو۔ «وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» (3-آل عمران:36) میں اس کو اور ا س کی اولاد کو مردودشیطان (کے شرسے) تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1072]
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ شیطان ان دونوں عظیم شخصیات پر پیدائش کے وقت ہنزہ نہیں مار سکا۔
نیز شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ بچے کی پیدائش سے اپنی وارداتیں شروع کر دیتا ہے، اور مرتے دم تک اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔
اے رب العالمین! ہم کو، ہماری اولا د کو، ہمارے اساتذہ اور والدین کو، ہمارے تلامذہ اور تمام امت مسلمہ کو شیطان کی مکاریوں سے محفوظ فرما
یہاں سے اولاد کی خاص تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، اور اولاد کے لیے بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ وہ انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہوتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1071   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6133  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیدا ہونے والا جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو کچوکا لگاتا ہے۔ مگر ابن مریم ؑ اور اس کی ماں اس سے محفوظ رہے) پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اگر تم چاہو تو یہ پڑھ لو: اور میں اسے اور اس کی اولاد کو مردود شیطان سے تیری پناہ میں دیتے ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6133]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نَخَسَ:
کچوکا لگانا،
کوئی نوکدار چیز چبھونا۔
(2)
يستهل صارخا:
بلند آواز سے روتا ہے۔
فوائد ومسائل:
حضرت مریم کی والدہ کی دعا کے نتیجہ میں،
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو شیطانی کچوکے سے محفوظ رکھا ہے،
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
یہ فضیلت صرف مریم اور ابن مریم کو حاصل ہے،
اگرچہ قاضی عیاض،
تمام انبیاء کو اس میں شریک کرتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6133   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6136  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نومولود بچہ اس وقت روتا ہے، جب شیطان ان کوکچوکا لگاتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6136]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
نزغة اور نخس کا معنی کچوکا لگانا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6136   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3286  
3286. حضرت ابوہریرہ ؓسے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر انسان کی پیدائش کے وقت شیطان اپنی انگلیوں سے اس کے پہلو میں کچو کے لگاتا ہے، سوائے عیسیٰ ابن مریم ؑ کے۔ وہ انھیں کچو کا لگانے لگا تو وہ کچوکا اس پردے پر ہی لگ لیاجس میں وہ لیٹے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3286]
حدیث حاشیہ:
مریم ؑ کی والدہ نے حضرت مریم کی پیدائش پر دعا کی تھی:
﴿إِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ اے اللہ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
(آل عمران 36/3)
اس دعا کی برکت سے شیطان انھیں کچوکا لگانے میں کامیاب نہ ہوسکا بلکہ اس جھلی ہی کو کچوکا لگایا جس میں عیسیٰ ؑ تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے:
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کی پیدائش کے وقت(اپنے غلیظ ہاتھوں سے)
اسے چھوتا ہے تو وہ چلا کررونے لگتا ہے، صرف مریم ؑ اور اس کے بیٹے کو شیطان نے نہیں چھوا۔
پھرحضرت ابوہریرہ ؓ نے مذکورہ بالاآیت کی تلاوت فرمائی۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3431)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3286   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3431  
3431. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: بنو آدم میں سے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ تو پیدائش کے وقت اسے شیطان چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے مس کرنے کی وجہ سے چیخنے لگتاہے۔ مریم ؑ اور ان کے بیتے حضرت عیسیٰ ؑ کے علاوہ۔ پھر ابوہریرہ ؓنے بیان کیا (اس کی وجہ یہ دعا ہے:)میں اسے (مریم ؑ) اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3431]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کے پہلو میں اپنی انگلی مارتا ہے لیکن حضرت عیسیٰ ؑ اس سے محفوظ ر ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3286)

اس حدیث میں حضرت مریم ؑ کو بھی شامل کیاگیا ہے۔
دراصل پہلی حدیث میں بچے کے پہلو میں انگلی مارنے کے اعتبار سے حصر تھا اور اس حدیث میں مس کے لحاظ سے حصر ہے اور یہ دونوں حکم مختلف اورالگ الگ ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3431   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4548  
4548. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، چنانچہ شیطان کے چھونے سے بچہ چلانے لگتا ہے۔ البتہ حضرت مریم اور ان کے بیٹے کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے تھے کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ "میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4548]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ اولاد آدم کو پیدائش کے وقت شیطان اپنی دونوں انگلیوں سے اس کے پہلو میں کچوکا لگاتا ہے لیکن عیسیٰ ابن مریم ؑ اس سے محفوظ رہے۔
اس نے کچوکا لگانے کی کوشش کی لیکن وہ انھیں لگنے کی بجائے پردے میں لگ گیا۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3286)
اللہ تعالیٰ نے دیگرانبیاء ؑ کو بھی شیطان کی اس حرکت کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ مریم اور عیسیٰ ؑ کو کسی مصلحت سے یہ صورت سرے سے پیش ہی نہیں آئی، دوسرے انبیاء ؑ کو شاید پیش تو آئی ہو مگر اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہے۔
رسول اللہﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ان دونوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہود نے ان کے متعلق بہت سی افواہیں پھیلائی تھیں اور ان کی تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یہ حضرات تو ابتدائے ولادت سے تصرف شیطان سے مستثنیٰ قراردیے گئے تھے تو بعد کی زندگی میں یہ شیطانی بہکاوے کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں اور منکرات سے تعلق رکھنے والی وہ باتیں کیسے درست ہوسکتی ہیں جو یہود ان مقدس ہستیوں اور پاکیزہ نفوس کے متعلق کہتے ہیں۔
واللہ المستعان۔

بہرحال اس حدیث میں حضرت مریم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی ایک جزوی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
اس جزوی برتری سے رسول اللہ ﷺ کی کلی فضیلت متاثر نہیں ہوتی کیونکہ آپ تو ساری مخلوق سے افضل ہیں۔

اگرچہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے ضرور مس کرتا ہے اور کچوکے لگاتا ہے مگرحضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ ماجدہ اس سے مستثنیٰ ہیں، البتہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے مستثنیٰ نہ ہو، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہرشخص اس مس شیطانی کا اثر قبول کرے یا قبول کرے تو آئندہ چل کروہ برابر باقی بھی رہے۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ دیگر انبیائے کرام ؑ کی عصمت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4548