Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
یہودیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا
حدیث نمبر: 58
‏‏‏‏عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لصَاحبه اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِي فَقَالَ صَاحِبُهُ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَة أَعْيُنٍ فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ لَهُم: «لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحصنَة وَلَا توَلّوا الْفِرَار يَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدوا فِي السبت» . قَالَ فقبلوا يَده وَرجله فَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تتبعوني قَالُوا إِن دَاوُد دَعَا ربه أَن لَا يزَال فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ
سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کسی یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: ہمیں اس نبی کے پاس لے چلو، تو اس نے اپنے ساتھی سے کہا: تم نبی نہ کہو: کیونکہ اگر اس نے تمہاری بات سن لی تو وہ بہت خوش ہو گا، پس وہ دونوں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے واضح نشانیوں کے بارے میں آپ سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نہ زنا کرو، نہ کسی ایسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ کسی بے گناہ شخص کو کسی صاحب اقتدار کے پاس لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، جادو کرو نہ سود کھاؤ، پاک دامن عورت پر تہمت نہ لگاؤ نہ معرکہ کے دن میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگو، اور تم بالخصوص یہود پر لازم ہے کہ تم ہفتے کے دن کے بارے میں زیادتی نہ کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں، ان دونوں نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نبی ہیں، آپ نے فرمایا: تو پھر کون سی چیز تمہیں میری اتباع نہیں کرنے دیتی؟ انہوں نے عرض کیا: داؤد ؑ نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ نبوت کا سلسلہ اس کی اولاد میں جاری رہے، اور ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اتباع کر لی تو یہود ہمیں قتل کر دیں گے۔  اس حدیث کو ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (2733 و قال: ھذا حديث حسن صحيح، 3144) و أبو داود (لم أجده) والنسائي (7/ 111 ح 4083) [و ابن ماجه (3705)] قلت: فيه عبد الله بن سلمة: حسن الحديث علي الراجح.»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 58 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 58  
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن ہے۔
اسے ترمذی [2733] و نسائی [4083] کے علاوہ ابن ماجہ [3705] أحمد بن حنبل [4؍239 ح18092، 4؍240 ح18096] حاکم [1؍9 ح20] ابن ابی شیبہ [المصنف 14؍289 ح36532، المسند 2؍367۔ 369 ح880، 881] ابوداود الطیالسی [1164] اور طحاوی [معانی الآثار 3؍215] وغیرہم نے «شعبة عن عمرو بن مره عن عبدالله بن سلمه عن صفوان» کی سند سے روایت کیا ہے۔
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔ شعبہ بن الحجاج اور عمرو بن مرہ مشہور ثقہ راوی ہیں۔ مثلا دیکھئے: [تقریب التہذیب 2790، 5112]

عبداللہ بن سلمہ پر درج ذیل علماء نے جرح کی ہے:
① البخاری، «قال: لا يتابع فى حديثه» [التاريخ الكبير 5؍99]
② ابوحاتم الرازی، «قال: تعرف وتنكر» [الجرح والتعدیل 5؍74]
③ النسائی، «قال: يعرف وينكر» [كتاب الضعفاء والمتروكين: 347]
④ العقیلی، «ذكره فى الضعفاء» [الضعفاء الكبير 2؍265]
⑤ ابن الجوزی، «ذكره فى الضعفاء» [2؍125 ت2038]
⑥ ابو احمد الحاکم: «حديثه ليس بالقائم» [كتاب الكنيٰ بحواله تهذيب التهذيب 5؍241]

درج ذیل علماء نے عبداللہ بن سلمہ مذکور کی توثیق کی ہے:
① العجلی، «قال: ثقه» [كتاب التاريخ: 819]
② ابن عدی، قال: «وأرجو أنه لا بأس به» [الكامل 4؍1487]
③ ابن حبان، «قال: يخطئ» [الثقات 5؍12] «وصحح حديثه» [الاحسان: 796، 797، 6901، 7039]
④ ابن خزیمہ، «روى له فى صحيحه» [ح2080]
⑤ ابن الجارود، «روى له فى المنتقىٰ» [ح94]
⑥ ترمذی، «صحح له» [ح146]
⑦ البغوی، «صحح له» [شرح السنة 2؍41 ح273]
⑧ الحاکم، «صحح له» [المستدرک 1؍52، ح541، 4؍107 ح7083]
⑨ الذہبی، «صحح له» [تلخيص المستدرك 1؍152، 4؍107]
⑩ الہیثمی، «قال فى حديثه: رواه الطبراني وإسناده حسن» [مجمع الزوائد 9؍292]
◈ یعقوب بن شیبہ، «قال: ثقه» [تهذيب التهذيب 5؍241 بغير سند]
◈ ابن السکن، «صحح له» [التلخيص الحبير 1؍139 ح184]
◈ عبدالحق الاشبلی، «صحح له» [التلخيص 1؍139]
⑪ حافظ ابن حجر، «قال: والحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة» اور حق یہ ہے کہ وہ حسن کی قسم (کے راویوں) میں سے ہے جو کہ حجت بنانے کے لائق ہے۔ [فتح الباري 1؍324]
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن سلمہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی ہیں، لہٰذا ان کی حدیث حسن کے درجے سے قطعاً نہیں گرتی۔ جمہور محدثین کرام کا ان کی بیان کردہ حدیث کو حسن یا صحیح قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ عمرو بن مرہ کا عبداللہ بن سلمہ سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے، لہٰذا اس سند پر اختلاط کا الزام مردود ہے۔
سنن دارقطنی میں ہے کہ شعبہ نے عبداللہ بن سلمہ کی ایک حدیث کے بارے میں فرمایا:
«ما أحدث بحديث أحسن منه»
میں اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی حدیث بیان نہیں کرتا۔ [1؍119، 120 ح423]
معلوم ہوا کہ شعبہ کے نزدیک عمرو بن مرہ کا عبداللہ بن سلمہ سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔
ابن خزیمہ نے صحیح سند کے ساتھ امام شعبہ سے نقل کیا:
«هذا حديث ثلث رأس مالي»
یہ حدیث میرے سرمائے کا تیسرا حصہ ہے۔ [1؍104 ح208]

تنبیہ:
سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ سنن ابی داود میں نہیں ملی۔!!

فقہ الحدیث:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عام یہودی علماء کو یہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی اور رسول ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے تھے۔ معلوم ہوا کہ صرف دل میں کسی بات کا یقین کر لینا اس بات کی حتمی دلیل نہیں ہے کہ ایسا شخص اب مومن ہو گیا ہے، بلکہ دلی یقین کے ساتھ زبانی اقرار اور جسمانی عمل ضروری ہے۔
➋ اس حدیث میں جن نو آیتوں (اور دسویں بات) کا ذکر ہے، یہ دس احکام ہیں جو بنی اسرائیل کو دیئے گئے تھے۔ سورۂ بنی اسرائیل [101] میں جن نو آیات (نشانیوں) کا ذکر آیا ہے وہ ان کے علاوہ نشانیاں ہیں۔ ابوالحسن علی بن أحمد الواحدی [متوفی 468ھ] فرماتے ہیں:
مفسرین یہ کہتے ہیں کہ ان نو نشانیوں سے مراد یہ ہے:
① طوفان
② ٹڈی دل
③ جوئیں
④ مینڈک
⑤ خون
⑥ عصا
⑦ موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ
⑦ بارش نہ برسنے والے سال
⑨ اور پھلوں میں کمی۔ دیکھئے: [الوسیط ج3ص130]
ان نشانیوں کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ان میں سے کئی نشانیاں وہ عذاب ہیں جو فرعونیوں پر بھیجے گئے۔ نیز دیکھئے: [تفسیر ابن کثیر 4؍187]
➌ بہت سے لوگ حق تسلیم نہ کرنے کے لئے جعلی عذر تراشنے اور جھوٹ بولنے سے ذرا بھی نہیں شرماتے ورنہ یہودیوں کی اپنی تسلیم کردہ محرف تورات میں لکھا ہوا ہے کہ میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔۔۔۔ [استثناء 16: 18 ص184]
لہٰذا آل داود والی بات نہ رہی بلکہ بنی اسرائیل کے بھائیوں بنی اسماعیل میں سے آخری نبی آ چکا مگر یہودی حضرات جھوٹ بولنے اور کفر سے ذرا بھی نہیں شرماتے۔
➍ ہاتھ چومنا دوسری روایت سے بھی ثابت ہے۔ عاصم بن بہدلہ نے کہا کہ جب ابووائل (شفیق بن سلمہ تابعی) سفر سے آتے تو میرا ہاتھ چومتے۔ [التقبيل والمعانقة لا بن الاعرابي بتحقيقي: 5 و سنده صحيح]
عبدالرحمٰن بن رزین وغیرہ تابعین نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا ہاتھ چوما۔ [التقبيل والمعانقه: 36 وسنده حسن، طبقات ابن سعد 4؍306، مسند أحمد 4؍54، 55، الادب المفرد للبخاري: 973 وقال الالباني: حسن الاسناد]
یزید بن الاسود (تابعی) نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کا ہاتھ چوما۔ [التقبيل والمعانقة: 37 وسنده صحيح]
لیکن دوسری روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاؤں چومنا منسوخ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجه: 1853 ومسند أحمد 4؍381 وصحيح ابن حبان، الموارد: 1290 وسنده حسن]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4083  
´جادو کا بیان۔`
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے دوست سے کہا: ہمیں اس نبی کے پاس لے چلو، دوست نے اس سے کہا: تم یہ نہ کہو کہ وہ نبی ہے، اگر اس نے تمہاری بات سن لی تو اس کی چار چار آنکھیں ہوں گی (یعنی اسے بہت خوشی ہو گی)، پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے نو واضح احکام کے بارے میں پوچھا (جو موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے) ۱؎ آپ نے ان سے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری اور زنا نہ کرو اور اللہ نے جس نفس کو حرام۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4083]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بغرض تفہیم حدیث چند ضروری وضاحتیں حاضر خدمت ہیں: اس کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔ یعنی وہ بہت خوش ہوں گے کیونکہ خوشی انسان کی قوتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔
(2) وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے نو واضح آیات کے بارے میں پوچھا۔ ان آیات بینات سے کیا مراد ہے؟ آیات جمع ہے آیَۃٌ کی۔اس کے کئی ایک معانی ہیں، مثلاً: کسی چیز کی ظاہری علامت، نشان، خاص نشان، عبرت، سامانِ عبرت، ذات، جماعت، قرآن مقدس کا ایک جملہ یا چند جملے جن کے آخر میں وقف (گول دائرہ) ہوتا ہے۔ اسی طرح معجزہ بھی آیۃ کہلاتا ہے اور ہر وہ کلام جو لفظاً دوسرے کلام سے منفصل اور جدا ہوتا ہے اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ محسوسات پر بھی بولا جاتا ہے اور معقولات پر بھی جس طرح کہ علامۃ الطریق اور الحکم الواضح وغیرہ۔ اس جگہ حدیث میں اس سے کیا مراد ہے، احکام یا معجزے؟ اگر تسع آیات بینات سے مراد احکام ہوں، پھر تو حدیث میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ ان یہودیوں کو سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، زنا نہ کرو، سود نہ کھاؤ، کسی بے گناہ پر ظلم و زیادتی یا اسے قتل کرانے کے لیے حاکم و سلطان کے پاس نہ لے جاؤ وغیرہ، یعنی آپ نے ان کے سوال کے جواب میں احکام ذکر فرمائے ہیں۔ چونکہ سوال و جواب میں مطابقت ہے، لہٰذا کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ لیکن یہاں آیات بینات سے مراد احکام نہیں بلکہ معجزات ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ان دونوں (یہودیوں) نے آیت مبارکہ ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ﴾ (بني اسرائیل الاسراء 17:101) کے بارے میں سوال کیا۔ جامع ترمذی کی روایت میں بھی اس قسم کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد بن حنبل: 30/22، حدیث: 18096، و جامع الترمذی، تفسیر القرآن، بني اسرائيل، حدیث: 3144) بہرحال اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا سوال احکام کی بابت نہیں تھا بلکہ ان نو معروف اور اہم معجزات کے متعلق تھا جو موسیٰ علیہ السلام  کو عطا فرما کر فرعون اور اس کی فاسق و فاجر قوم کی طرف بھیجا گیا تھا اور ان معجزات سے مراد ہیں: عصا، ید بیضا وغیرہ۔ ایک مقام پر قرآن مجید میں اس کی صراحت کچھ یوں فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَأَلْقِ عَصَاكَ … تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ (النمل 27:10-12) اس مقام پر نو میں سے صرف دو معجزے مذکور ہیں، باقی مفصل طور پر سورۂ اعراف میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ … فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ﴾ (الأعراف: 7:130-133) ویسے موسی ﷺ کو ان نو معجزات کے علاوہ اور بھی کئی معجزے دیے گئے تھے، مثلاً: پتھر پر مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہونا، بادلوں کا سایہ کرنا اور من و سلویٰ نازل کرنا وغیرہ جو مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو دیے گئے۔ اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سوال معجزات ہی کے بارے میں تھا، نہ کہ احکام کے بارے میں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ موسیٰ ﷺ کو فرعون کی طرف ہی بھیجا گیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی واضح طور پر تصریح موجود ہے۔ اگر ان نو واضح آیات سے مراد احکام ہوں تو اس سے فرعون اور اس کی قوم پر کوئی حجت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ اصل بات تو فرعون اور اس کی قوم سے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت تسلیم کرانا، اور انہیں ان پر ایمان لانے پر آمادہ کرنا تھا۔ اگر ان سے مراد احکام ہوں تو اس سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا، یعنی موسیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت کا اثبات اور منکرین کی تردید۔ اب رہا یہ اشکال کہ سوال تو تھا معجزات کی بابت جبکہ جواب میں احکام ارشاد فرما دیے گئے۔ اس کی کیا وجہ؟ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان مشہور و معروف نو معجزات ہی کا ذکر فرمایا تھا، کسی وجہ سے راوی نے ان کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد ان عام احکام کا ذکر کر دیا جو تمام اقوام و ملل کے لیے واجب العمل ہیں۔ تورات میں بھی یہ سب احکام مذکور ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کے ایک راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظے میں خرابی ہے جس کی وجہ سے اس پر جواب خلط ملط ہو گیا ہے اور اس نے نو معجزات ان دس کلمات کو بنا دیا ہے جو تورات میں مذکور ہیں لیکن یہ فرعون پر حجت قائم کرنے اور موسیٰ ﷺ کی نبوت و صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورة بني اسرائیل، تحت آیة: 101، و ذخیرة العقبی، شرح سنن النسائی، المحاربة، حدیث: 3ث40، و التعلیقات السلفیة علی سنن النسائي، المحاربة، حدیث: 4083) بلاشبہ مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نو واضح آیات سے مراد: عصا، ید بیضا، قحط، پھلوں کی کمی، طوفان، جوئیں، ٹڈیاں، مینڈک اور خون ہیں۔ ویسے ان کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور معجزے بھی دیے گئے تھے مگر ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے نہ کہ آلِ فرعون سے۔ یہ تفصیل تو تھی نو واضح آیات کی بابت۔ اب باقی رہ گئی دسویں چیز، یعنی جو صرف یہودیوں کے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی بھی اس میں ان کا شریک نہیں، تو اس سے مراد، جیسا کہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے، ہفتے کی تعظیم کرنا اور وہ تعظیم بھی صرف اسی حد تک معلوم ہوتی ہے کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں اور بس۔ چونکہ باقی نو احکام تمام ملل و اقوام میں مشترک ہیں جبکہ یہ دسواں حکم صرف یہودیوں کے لیے تھا، اس لیے فرمایا گیا کہ اے یہودیو! یہ تمہارے ساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی اس میں تمہارا شریک نہیں۔ و اللہ أعلم
(3) صاحب اقتدار کے پاس نہ لے جاؤ تاکہ اسے کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر ناحق سزا دلواؤ یا اسے قتل کرا دو، یا اس پر کسی قسم کی زیادتی اور ظلم کراؤ۔
(4) تجاوز نہ کرو یعنی اس دن مچھلی کا شکار نہ کرنے کے متعلق۔
(5) ہاتھ اورپاؤں چومے محبت اور پیار میں یا بطور احترام بوسہ دینا ایک فطری امر ہے۔ بچوں اور بزرگوں کو بوسے دیے جاتے ہیں، البتہ پاؤں کے بوسے میں سجدے سے مشابہت ہوتی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
(6) نبی ان کی نسل سے آئے اس بات سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ داود علیہ السلام  نے اس کی بابت دعا کی تھی کہ ان کی نسل ہی سے نبی آئیں، چونکہ آپ نبی ہیں، لہٰذا آپ کی یہ دعا قبول ہو گی، اس لیے ہم اس نبی کے آنے کے منتظر ہیں اور پھر ہم اسی کی اتباع کریں گے۔ لیکن یہودیوں کا یہ صریح جھوٹ ہے، اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ سیّدنا داود علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی اس قسم کی کوئی دعا کریں جبکہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کا تاج حضرت محمد کریم ﷺ کے سر پر سجانا ہے۔ سیدنا داود علیہ السلام پر یہودیوں کا یہ محض افترا ہے کیونکہ وہ تو تورات و زبور میں یہ پڑھ چکے تھے کہ حضرت محمد ﷺ بطور خاتم النبیین مبعوث ہوں گے، نیز یہ بھی کہ آپ سابقہ ادیان و شرائع کو منسوخ کریں گے۔ اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے داود علیہ السلام ایسی دعا کیونکر فرما سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس اطلاع کے بھی خلاف ہے جو کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کی شان و مرتبے کے متعلق اپنے انبیاء و رسل کو دی ہے۔ و اللہ أعلم۔ مذکور بات یہودیوں میں غلط مشہور کر دی گئی تھی ورنہ یہ بات عقلاً صحیح ہے نہ نقلاً۔ حضرت داود ﷺ سے پہلے بھی انبیاء مختلف نسلوں سے آئے، بعد میں بھی۔ ممکن نہ تھا کہ ساری دنیا کے لیے انبیاء صرف ایک ہی نسل سے آئیں۔ یہ بات نبی کی بصیرت سے مخفی نہیں رہ سکتی تھی، لہٰذا وہ یہ دعا نہیں کر سکتے تھے۔
(7) قتل کر دیں گے رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے کی دوسری وجہ ان یہودیوں نے یہ بیان کی کہ آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہمیں جان کا خطرہ ہے، لہٰذا ہم ایمان نہیں لاتے۔ ان کا یہ بہانہ بھی بلکل بھونڈا اور غلط تھا کیونکہ اگر وہ ایمان لے آتے تو وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہتے، اس لیے باقی یہودیوں کو یہ جرأت ہی نہ ہو سکتی کہ وہ انہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے قتل کرتے؟ پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تو مومن بن گئے تھے، کیا انہیں قتل کیا گیا تھا جو انہیں کیا جاتا؟ یہ بھی ان کا صریح جھوٹ تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4083   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3144  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
صفوان بن عسال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات» ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں (اسرائیل: ۱۰۱)، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3144]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں (اسرائیل: 101)

نوٹ:
(سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں،
لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3144