مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
لا الہ الا اللہ جنت کی چابی
حدیث نمبر: 41
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنُوا عَلَيْهِ حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يُوَسْوِسُ قَالَ عُثْمَان وَكنت مِنْهُم فَبينا أَنا جَالس فِي ظلّ أَطَم من الْآطَام مر عَليّ عمر رَضِي الله عَنهُ فَسلم عَليّ فَلم أشعر أَنه مر وَلَا سلم فَانْطَلق عمر حَتَّى دخل على أبي بكر رَضِي الله عَنهُ فَقَالَ لَهُ مَا يُعْجِبك أَنِّي مَرَرْت على عُثْمَان فَسلمت عَلَيْهِ فَلم يرد عَليّ السَّلَام وَأَقْبل هُوَ وَأَبُو بكر فِي وِلَايَةَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى سلما عَليّ جَمِيعًا ثمَّ قَالَ أَبُو بكر جَاءَنِي أَخُوك عمر فَذكر أَنه مر عَلَيْك فَسلم فَلم ترد عَلَيْهِ السَّلَام فَمَا الَّذِي حملك على ذَلِك قَالَ قُلْتُ مَا فَعَلْتُ فَقَالَ عُمَرُ بَلَى وَاللَّهِ لقد فعلت وَلكنهَا عبيتكم يَا بني أُميَّة قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ أَنَّكَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَّمْتَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقَ عُثْمَانُ وَقد شَغَلَكَ عَنْ ذَلِكَ أَمْرٌ فَقُلْتُ أَجْلَ قَالَ مَا هُوَ فَقَالَ عُثْمَان رَضِي الله عَنهُ توفى الله عز وَجل نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ نَجَاةِ هَذَا الْأَمْرِ قَالَ أَبُو بكر قد سَأَلته عَن ذَلِك قَالَ فَقُمْت إِلَيْهِ فَقلت لَهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَنْتَ أَحَقُّ بِهَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَجَاةُ هَذَا الْأَمْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -[20]- مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِي عَرَضْتُ عَلَى عَمِّي فَرَدَّهَا فَهِيَ لَهُ نجاة. رَوَاهُ أَحْمد
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کے صحابہ کرام آپ کی وفات پر غم زدہ ہو گئے، حتیٰ کہ قریب تھا ان میں سے بعض وسوسہ کا شکار ہو جاتے، عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اور میں بھی انہی میں سے تھا، پس میں بیٹھا ہوا تھا، کہ اس اثنا میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن (شدت غم کی وجہ سے) مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں چلا، پس عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی، پھر وہ دونوں آئے حتیٰ کہ ان دونوں نے ایک ساتھ مجھے سلام کیا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے کس وجہ سے اپنے بھائی عمر کے سلام کا جواب نہیں دیا، میں نے کہا، میں نے تو ایسے نہیں کیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم! آپ نے ایسے کیا ہے، عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کے گزرنے کا پتہ ہے نہ سلام کرنے کا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان نے سچ فرمایا، کسی اہم کام نے آپ کو اس سے غافل رکھا ہو گا؟ تو میں نے کہا: آپ نے ٹھیک کہا، انہوں نے پوچھا: وہ کون سا اہم کام ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی اس سے پہلے کہ ہم آپ سے اس معاملے کی نجات کے بارے میں دریافت کر لیتے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق آپ سے پوچھ لیا تھا، میں ان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں کہا: میرے والدین آپ پر قربان ہوں، آپ ہی اس کے زیادہ حق دار تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس معاملے کا حل کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے مجھ سے وہ کلمہ، جو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا لیکن اس نے انکار کر دیا، قبول کر لیا تو وہی اس کے لیے نجات ہے۔ “ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 6 ح 20)
٭ فيه رجل من الأنصار من أھل الفقه: لم أعرفه و لم يوثقه الزھري.»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 41 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 41
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
◄ اس کی سند میں ایک راوی «رجل من الأنصار من أهل الفقه» مجہول الحال ہے۔
میرے علم کے مطابق کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی۔
کسی کو، زمانہ تدوین حدیث میں «من أهل الفقه» اور «غير متهم» کہنا توثیق نہیں ہوتی۔
◄ مسند أحمد [6/1] اور مسند ابی یعلی [ح10] مسند البزار [البحرالزخار 56/1 ح4] التاریخ الکبیر للبخاری [169/1] اور مسند ابی بکر الصدیق [ح14] میں «من اهل الفقه» ہے۔
جبکہ کشف الاستار [ح1] میں «من اهل العبقة» اور مجمع الزوائد [14/1] میں «من اهل الثقة» غلطی سے چھپ گیا ہے۔
◄ حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی نے بغیر کسی تحقیق کے «من اهل العقبة» والے الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے جو کہ مذکورہ بالا حوالوں کی روشنی میں مردود ہے۔
تنبیہ:
مرعاۃ المفاتیح [113/1] میں بھی بغیر تحقیق کے «من اهل الثقة» لکھ دیا گیا ہے اور پھر اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، حالانکہ حق و انصاف یہی ہے کہ یہ الفاظ اس روایت کی سند میں ثابت ہی نہیں ہیں۔ «والله هو الموفق»
◄ مسند أحمد [7/1ح37] میں بعض حدیث کا مختصر شاہد ہے جس کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ ابوالحویرث عبدالرحمٰن بن معاویہ ضعیف ہے۔ [نيل المقصود: 1105] اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ديكهئے: [مجمع الزوائد 1؍8]
تنبیہ:
دوبارہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ قول راجح میں ابوالحویرث مذکور جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے، لہٰذا یہ وجہ، ضعف نہیں ہے۔
➋ سند منقطع ہے۔ محمد بن جبیر نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، لہٰذا اس سند کو بوصیری اور سیوطی کا حسن قرار دینا غلط ہے۔
شاہد دوم:
سیدنا عثمان رضی اللہ علیہ کے ذکر کے بغیر، بعض حدیث کا شاہد مسند أحمد [28/1ح187] میں ہے۔ اس کی سند بھی مجالد بن سعید (ضعیف) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
شاہد سوم:
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ، اس سیاق کے بغیر، بعض حدیث کا شاہد مسند أحمد [63/1 ح447] و مستدرک الحاکم [351/1] میں ہے، لیکن اس شاہد کی سند بھی ضعیف ہے۔
اس سند میں سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ بن دعامہ دونوں مدلس ہیں اور «عن» سے روایت کر رہے ہیں، لہٰذا اس سند کو «صحيح على شرط الشيخين» کہنا غلط ہے۔
شاہد چہارم:
مسند ابی یعلیٰ [ح9] البحرالزخار [ح5] مسند ابی بکر الصدیق للمروزی [ح7، 8] اور شعب الایمان للبیہقی [107/1ح92] وغیرہ میں «الزهري عن سعيد بن المسيب عن عثمان عن ابي بكر» کی سند سے مروی ہے۔ یہ سند بھی ضعیف ہے۔
زہری مدلس ہیں اور روایت «عن» سے ہے۔ امام بخاری اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ «ولا يصح فيه سعيد» “ اس میں سعید کا لفظ صحیح نہیں ہے۔ [التارخ الكبير169/1]
آپ نے دیکھ لیا کہ اس متن والی یہ روایت اپنے تمام شواہد کے ساتھ ضعیف و مردود ہے۔ تاہم یہ بات بالکل صحیح و ثابت ہےکہ نجات کا دارومدار سچے دل سے لا الہٰ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار ہے۔ بشرطیکہ آدمی ہر قسم کے شرک و کفر سے اعلان برأت کر لے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «من مات وهو يعلم أنه لا إلٰه إلا الله دخل الجنة» جو آدمی اس حالت میں مرے کہ وہ (سچے دل سے) جانتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے (اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں) تو جنت میں داخل ہو گا۔ [صحيح مسلم: 26/136]
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بذات خود سنی تھی۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 26/137]
تنبیہ بلیغ:
روایت مذکورہ سے مشابہ قصہ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جنہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی تھی۔ دیکھئے مسند أحمد [161/1ح1386] و عمل الیوم و الليلة للنسائی [1100] وسندہ صحیح، و صححہ الحاکم علی شرط الشیخین [350/1، 351] ووافقہ الذہبی (!)
شرک و کفر کرنے والا شحض اگر آخری وقت میں یہ کلمہ پڑھ لے اور شرک و کفر سے اعلان برأت کر دے تو نجات پا لے گا۔ «والله غفور رحيم»
تنبیہ:
بعض لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی اس غیر ثابت روایت کی تاویلات و تشریحات بھی کی ہیں لیکن جب روایت ہی ضعیف ہو گئی تو ان تاویلات وتشریحات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 41