Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
اسلام سابقہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے
حدیث نمبر: 28
‏‏‏‏وَعَن عَمْرو بن الْعَاصِ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقلت ابْسُطْ يَمِينك فلأبايعك -[16]- فَبسط يَمِينه قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي فَقَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قلت أردْت أَن أشْتَرط قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أما علمت أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يهدم مَا كَانَ قبله» ؟ ‏‏‏‏وَالْحَدِيثَانِ الْمَرْوِيَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:" قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ» . والاخر: «الْكِبْرِيَاء رِدَائي» سَنَذْكُرُهُمَا فِي بَابِ الرِّيَاءِ وَالْكِبْرِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى. رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، آپ نے دایاں ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا، میں شرط قائم کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بتاؤ! کیا شرط قائم کرنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے (حالت کفر والے) گناہ مٹا دیتا ہے۔ ہجرت اپنے سے پہلے کیے ہوئے گناہ مٹا دیتی ہے اور بیشک حج بھی ان گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے کیے ہوتے ہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی دو حدیثیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں شرکاء کے شرک سے بے نیاز ہوں۔ اور دوسری حدیث: کبر میری چادر ہے۔ میں ان دونوں حدیثوں کو ان شاء اللہ تعالیٰ باب الریاء اور باب الکبر میں بیان کروں گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (121/ 192)
حديث: ’’قال الله تعالٰي: أنا أغني الشرکاء عن الشرک‘‘ سيأتي (5315) و حديث: ’’الکبرياء ردائي‘‘ سيأتي (5110)»

قال الشيخ الألباني: صَحِيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 28 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 28  
تخریج الحدیث:
[صحیح مسلم 321]

فقہ الحدیث
➊ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی اور آپ کی وفات کے بعد «اولوالامر» (امراء) کی بیعت دائیں ہاتھ سے کی جاتی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ترون كفي هذه، فأشهد أني وضعتها على كف محمد صلى الله عليه وسلم»
تم میری یہ ہتھیلی دیکھتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسے (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر (بیعت کے لئے) رکھا تھا۔ [مسند أحمد 189/4 ح 17842 و سنده صحيح، وأخطأ من أعله، وأورده الضياء فى المختاره 59/9]
لہٰذا صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ جائز و مشروع بلکہ افضل ہے۔
دیوبندیوں کے ایک بڑے عالم محمود حسن گنگوہی صاحب ایک شخص کے استفسار پر مصافحہ کے بارے میں کہتے ہیں:
ایک ہاتھ سے بھی صحیح ہے اور دونوں ہاتھوں سے بھی، دونوں قول کوکب الدری ج 2 ص 141 میں ہیں۔ [ملفوظات فقيه الامت ج7 ص23]
صحیح بخاری میں ہے کہ: «وصافح حماد بن زيد ابن المبارك بيديه»
اور حماد بن زید نے ابن المبارک سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔ [كتاب الاستئذان باب الاخذ باليدين قبل ح: 6265]
لہٰذا اگر کوئی شخص دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ عام مرفوع احادیث سے استنباط کرتے ہوۓ صرف ایک (دائیں) ہاتھ سے ہی مصافحہ کیا جائے۔ «والله اعلم»

فائدہ: ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كنا إذا أتينا أنس بن مالك، فإذا رآنا دعا بدهن طيب، فيمسح به يديه ليصافح به أخوانه»
ہم جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آتے، جب وہ ہمیں دیکھتے تو خوشبودار تیل منگواتے پھر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ملتے تاکہ اس (خوشبودار تیل) کے ساتھ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کریں۔ [كتاب الزهد لابي حاتم الرازي ص76 وسنده صحيح]
اسی روایت کی دوسری سند میں ثابت البنانی رحمہ اللہ سے آیا ہے کہ:
«أن انسا كان أصبح دهن يده بدهن طيب لمصافحة إخوانه»
بےشک جب صبح ہوئی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر خوشبودار تیل لگاتے تاکہ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کریں۔ [الادب المفرد و للبحاري: 1012 وسنده حسن]
اس مسئلے میں تشدد کرنا صحیح نہیں ہے۔ جس کی جو تحقیق ہے وہ اس پر عمل کر لے، ان شاء اللہ عنداللہ ماجور ہو گا۔ نیز دیکھئے: [الادب المفرد للبخاري: 973 و سنده حسن]
➋ اگر کوئی (دارالحرب والا) کافر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو اس کے پہلے (سابقہ) سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حج اور ہجرت سے سارے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لئے توبہ اور حق دار تک اس کا حق لوٹانا ضروری ہے۔
➌ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست کہ ان کی مغفرت ہو جائے، ان کی فضیلیت کی زبردست دلیل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«ابنا العاص مؤمنان عمرو و هشام»
عاص کے دونوں بیٹے عمرو (بن العاص) اور ہشام (بن العاص رضی اللہ عنہما) مؤمن ہیں۔ [مسند أحمد 304/2 ح 8029 و سنده حسن]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 28   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 321  
ابن شمامہ مہدیؒ سے روایت ہے کہ عمرو بن عاص ؓ کے پاس ان کی موت کے وقت موجود تھے، تو وہ دیر تک روتے رہے اور چہرہ دیوار کی طرف کر لیا، تو ان کا بیٹا کہنے لگا: اے ابا جان! کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہیں دی؟ کیا فلاں بشارت نہیں دی تھی؟ تو وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ہم سب سے بہتر چیز جس کا اہتمام و تیاری کرتے ہیں، اللہ کی الوہیت اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی ہے اور مجھ پر تین قسم کے حالات گزرے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:321]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
سِيَاقُ الْمَوْتِ:
موت کی آمد،
موت کا قرب۔
(2)
أَطْبَاقٌ:
طَبَقٌ کی جمع ہے،
حالت۔
(3)
اسْتَمْكَنْتُ:
مکنت و قدرت حاصل کر سکوں۔
(4)
مكنة (قوت)
سے ماخوذ ہے۔
(5)
ابْسُطْ يَمِينَكَ:
اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے۔
(6)
يَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ:
پہلے اثرات مٹا دیتا ہے یا ختم کر دیتا ہے،
یعنی اس سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(7)
إِجْلَالٌ:
جلالت سے ماخوذ ہے،
عظمت و بڑائی۔
(8)
أَنْ أَصِفَهُ:
آپ کا حلیہ و صورت بیان کروں۔
(9)
شُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ:
مجھ پر مٹی ڈالنا۔
(10)
نَائِحَةٌ:
نوحہ اور ماتم کرنے والی۔
(11)
جَزُورٌ:
اونٹنی جسے نحر کیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
حدیث سے اسلام،
ہجرت اور حج کی عظمت اور مقام ومرتبہ ظاہر ہے،
اگر یہ کام اخلاص اور حسنِ نیت سے کیے جائیں تو ان سے پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور گناہوں کی نحوست سے پاک ہو کر انسان نیکی کرنے کا جذبہ حاصل کر لیتا ہے،
اسلام لاتے ہی مبغوض ترین شخصیت،
محبوب ترین بن جاتی ہے۔
(2)
جاہلیت کے دور میں مرنے والے کے ساتھ،
اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کے اظہار کے لیے ماتم کرنے والی جاتی تھیں،
اور اس کی جود وسخا کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آگ بھی ساتھ لے جائی جاتی تھی،
جاہلیت کے اس شعار کو اسلام نے ختم کر دیا۔
(3)
حاضرین کو قبر پر مٹی ڈالنا چاہیے،
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس کچھ وقت کے لیے رک کر ثابت قدمی کی دعا کرنا مسنون ہے۔
لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر کے پاس جو گفتگو کی جاتی ہے قبر والا اس کو سنتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 321