Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
مومن کون؟
حدیث نمبر: 9
‏‏‏‏وَعَن الْعَبَّاس بن عبد الْمطلب قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا اس نے ایمان کی لذت کو پا لیا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (34/ 56)»

قال الشيخ الألباني: صَحِيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 9 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 9  
تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 151]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص شرک (اور کفر) نہیں کرتا، صرف ایک اللہ ہی کو اپنا رب، مشکل کشا و حاجت روا سمجھتا ہے، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (آخری) رسول اور نبی مانتا ہے اور دین اسلام کو ہی اپنا دین سمجھتا ہے تو یہ شخص مومن اور کامل الایمان ہے۔
اسلام کے ارکان ثلاثہ (توحید، رسالت اور آخرت) میں پہلا رکن توحید ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں کسی مخلوق کو شریک کر لیا، اس شخص کے سارے اعمال ضائع اور مردود ہیں۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ»
اگر یہ شرک کرتے تو ان کے تمام اعمال ضائع و باطل ہو جاتے۔ [الانعام: 88]
➋ ابوالفضل عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں دو تین سال بڑے تھے۔ غزوہ بدر سے پہلے یا بعد میں مسلمان ہوئے۔ آپ غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم رہے تھے۔ [صحيح مسلم: 1775، دارالسلام: 4612]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«هذا العباس بن عبدالمطلب أجود قريش كفاً وأوصلها»
یہ عباس بن عبدالمطلب ہیں، جو قریش میں سب سے زیادہ سخی اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔‏‏‏‏ [مسند أحمد 185/1 وسنده حسن، النسائي فى الكبري: 8174 وصححه ابن حبان، الاحسان: 7052 والحاكم 338/3، 329 ووافقه الذهبي]
آپ کی بیان کردہ پینتیس (35) احادیث مسند بقی بن مخلد میں ہیں۔ حافظ ذہبی نے آپ کے تفصیلی حالات لکھے ہیں۔ [سيراعلام النبلاء 78/2۔ 103]
آپ 32 ھ یا 34 ھ کو فوت ہوئے۔ «رضي الله عنه»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 9   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2623  
´باب:۔۔۔`
عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کے رب ہونے اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی (اور خوش) ہوا اس نے ایمان کا مزہ پا لیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2623]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو اللہ ہی سے ہر چیز کا طالب ہوا،
اسلام کی راہ کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر نہیں چلا اور نبی اکرم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر اس نے عمل کیا تو ایسے شخص کو ایمان کی مٹھاس مل کر رہے گی،
کیوں کہ اس کا دل ایمان سے پر ہوگا،
اور ایمان اس کے اندر پورے طور پر رچا بسا ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2623   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 151  
حضرت عبّاس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: ایمان کا مزہ چکھ لیا اس نے جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد ﷺ کو اپنا رسول ماننے پر دل سے راضی ہو گیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:151]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
جس طرح مزیدار اور ذائقہ دار مادی غذاؤں میں ایک لذت اور لطف ہوتا ہے جسے صرف وہ آدمی پا سکتا ہے جس کی قوت ذائقہ کسی بیماری کی وجہ سے متاثر نہ ہوئی ہو،
اسی طرح ایمان میں ایک لذت اور ذائقہ ہے،
جسے وہ خوش قسمت انسان ہی پا سکتا ہے،
جس نےپوری خوش دلی اور انبساط اور دل کی رضا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور پروردگار اور محمد ﷺ کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین اور زندگی کا دستور بنا لیا ہو،
اللہ ورسول اور اسلام کے ساتھ اس کا تعلق محض رسمی اور موروثی یا محض عقلی اور دماغی نہ ہو۔
بلکہ ان کے ساتھ دل کی گرویدگی اور شیفتگی ہو،
کیونکہ رضا کا معنی،
قناعت،
کفایت اور کچھ نہ چاہنا ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر راضی ہونا یہ ہے کہ اس کی قضا وقدر پر راضی رہے،
دکھ سکھ،
رنج والم اور تکلیف ومصیبت میں مطمئن رہے،
اس کا گلا شکوہ نہ کرے۔
اسلام پر راضی ہونا یہ ہے کہ اس کے احکام وہدایات کی دل کی گہرائیوں سے فرمانبرداری کرے اور اس کے احکام وفرامین کے بارے میں کسی قسم کے شک وشبہ میں نہ پڑے۔
اور محمد ﷺ کی رسالت پر راضی ہونا یہ ہے کہ آپ کی اطاعت واتباع کرے،
آپ (ﷺ) سے محبت وعقیدت کا رشتہ استوار کرے،
آپ کے طور وطریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اور رویہ اختیار نہ کرے،
ایسے انسان کو نیکی کے کام سے لذت وفرحت حاصل ہوتی ہے اور نافرمانی اور معصیت کے ارتکاب سے رنج وکلفت محسوس ہوتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 151