Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
1. بَابُ كَيْفَ نُزُولُ الْوَحْيِ وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ:
باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟
حدیث نمبر: 4983
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدَبًا، يَقُولُ:" اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَةً أَوْ لَيْلَتَيْنِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ، مَا أُرَى شَيْطَانَكَ إِلَّا قَدْ تَرَكَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَالضُّحَى {1} وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى {2} مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى {3} سورة الضحى آية 1-3".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، کہا کہ میں نے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور ایک یا دو راتوں میں (تہجد کی نماز کے لیے) نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (عوراء بنت رب ابولہب کی جورو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى‏» قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑ ا ہے اور نہ وہ آپ سے خفا ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4983 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4983  
حدیث حاشیہ:

حدیث میں"عورت" سے مراد لعین ابولہب کی بیوی ام جمیل بنت حرب ہے۔
لیکن ایک روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:
میرے خیال کے مطابق شاید آپ کا پروردگار آپ سے ناراض ہوگیا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناپاک اور گندی عورت ام جمیل اور ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں نے ایسا کہا تھا۔
لیکن دونوں کے اندازِ بیان اور مقصد میں واضح فرق ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو تسلی دینے کے لیے کہا اورآپ کے پروردگار کے الفاظ استعمال کیے جبکہ ام جمیل نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے شیطان کے الفاظ کہے۔
(فتح الباري: 907/8)

اس حدیث کو "فضائل قرآن" میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کے نزول میں تاخیر اس لیے نہ تھی کہ آپ کونظر انداز کردیا گیا تھا بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں تھیں جو ایک ہی بار قرآن کے نزول میں سرانجام نہ پاسکتی تھیں۔
ان حکمتوں کے پیش نظر حسب ضرورت گاہے بگاہے قرآنی آیات نازل ہوتی رہیں۔
(فتح الباري: 11/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4983   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1125  
´مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے`
«. . . عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" احْتَبَسَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ: أَبْطَأَ عَلَيْهِ شَيْطَانُهُ فَنَزَلَتْ: وَالضُّحَى {1} وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى {2} مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىى . . .»
. . . جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام (ایک مرتبہ چند دنوں تک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (وحی لے کر) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت (ام جمیل ابولہب کی بیوی) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى . . . [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد: 1125]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں یہاں مناسبت مشکل ہے، دراصل یہ حدیث اپنی پچھلی حدیث کا تتمہ ہے اور وہ حدیث بھی الاسود بن قیس سے روایت ہے اور دونوں کا مفہوم ایک دوسرے سے مناسبت رکھتا ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أن الأسود حدث به على الوجهين فحمل عنه كل واحد مالم يحمله الآخر، وحمل عنه سفيان الثوري الأمرين فحدث به مرة هكذا ومرة هكذا» [فتح الباري ج4 ص9]
جو ظاہر ہے وہ یہ کہ اسود نے دو طریقوں سے روایت کو بیان کیا ہے اور جو سفیان نے بیان کیا کہ دو امر پر ہے تو ایک کو اس طرح سے بیان کیا اور دوسرے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا۔ (یعنی سفیان رحمہ اللہ نے دونوں حدیثوں کو مختلف بیان کیا ہے حالانکہ دونوں کا تعلق ایک ہی مخرج کے ساتھ ہے)
◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ واضح کر دیں کہ حدیث ایک ہی ہے اس کے مخرج کے اتحاد کی وجہ سے اگرچہ سبب مختلف ہیں، لیکن قصہ ایک ہے۔

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے آپ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث أن هذا من تتبة الحديث السابق، ويدفع بهذا قاله ابن التين: ذكرا احتباس جبريل عليه السلام فى هذا الباب ليس فى موضعه، وذالك لأن الحديث واحد لا تحاد مخرجه، وان كان السبب مختلفًا» [عمدة القاري، ج7، ص258]

◈ شاہ ولی اللہ محمدث دہلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ان هذه الزيادة أيضًا داخله فى تلك القصة ولو حمل رواية محمد بن كثير أيضًا على ذالك لصح استدلال به فتدبر وتأمل» [شرح أبواب البخاري، ص315]
یعنی یہ تو زیادتی (انگلی زخمی ہونے کی) داخل اس قصے میں (جس حدیث کا ذکر ابتدا میں ہوا) اگر روایت محمد بن کثیر سے ہی لی جاتی تو استدلال صحیح ہوتا پس غور کریں۔‏‏‏‏
اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو راتوں تک تہجد نہ پڑھی اس کی وجہ بھی دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک میں سخت تکلیف تھی۔

❀ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«قال كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى غار فدميت إصبعه فقال: هل أنت إلا اصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت» [رواه ترمذي من طريق ابن عينية عن الأسود]
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا کہ آپ کی انگلی پر پتھر لگا تو خون نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک انگلی ہو اللہ کی راہ میں تمہیں مار لگی اور خون آلود ہوئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین راتوں کا قیام نہیں کیا تکلیف کی وجہ سے اور اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام بھی کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو ایک عورت نے کہا کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو یہ سورۃ الضحی نازل ہوئی۔‏‏‏‏ دیکھئے تفصیل کے لیے: [ضياء الساري للامام عبدالله بن سالم البصري ج10 ص271 وفتح الباري لابن حجر ج4 ص8]
وہ عورت کون تھی؟
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فهي أم جميل العوراء بنت حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف وهى أخت أبى سفيان بن حرب وأمرأة أبى لهب» [فتح الباري، ج4، ص9]
یعنی وہ عورت ام جمیل ابولہب کی بیوی تھی۔

◈ امام ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذه المرأة هي زوجة أبى لهب أم جميل واسمها العوراء» [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح، ص78]
یہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی اور اس کا نام عوراء ہے۔
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ دونوں احادیث کا مخرج ایک ہی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کے درد کی کثرت میں رات کا قیام نہ کر سکے اسی حالت میں جبریل علیہ السلام بھی وحی لے کر نہیں آئے تو ابولہب کی بیوی نے یہ گستاخی کی کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو جواباً اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔

فائدہ:
بعض مفسرین نے بیان کیا کہ یہ عورت جس نے کہا: کہ آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا ہے وہ سیدہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اس روایت کو اسماعیل القاضی نے (الاحکام) میں اور امام طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام ابوداؤد نے اعلام النبوۃ میں ذکر فرمایا ہے اور ان تمام طرق میں عبداللہ بن شداد بن الھاد ہیں اور وہ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور ان تک اسناد صحیح ہے۔ [ديكهئے تفسير الطبري ج12 ص622، فتح الباري ج4 ص8]
مگر ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ لفظ کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا یہ لفظ خدیجہ رضی اللہ عنہا تک درست نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«المتنكرة فى الخبر» یعنی اس خبر میں نکارت ہے جو خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں۔
بہت خوبصورت بات کہی صاحب متواری نے آپ رقمطراز ہیں کہ:
«ولا يصح عن خديجة رضي الله عنها ولا يقتضيه ايمانها وفضلها فقد كان من شأنها ان تثبت وناهيك بحديثها اول الوحي وقولها والله لا يخزيك الله ابدًا» [المتوازي ص122]
یہ خبر درست نہیں ہے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اور نہ ہی اس چیز کا تقاضا کیا جا سکتا ہے ان کے ایمان اور فضیلت کے سبب اور یقیناًً ان کی شان یہ ہے کہ وہ ثابت قدم رہنے والی ہیں جیسا کہ (بخاری شریف کی وہ حدیث جس میں پہلی وحی کا ذکر ہے کہ) سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔
لہٰذا ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اس قسم کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی، جو بات صحیح ہے اور پایہ ثبوت تک پہنچی وہ یہی ہے کہ ابولہب کی بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کی تھی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 244   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:795  
795- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کچھ عرصے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وحی لے کر حاضر نہیں ہوئے تو مشرکین یہ کہنے لگے: سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! کو چھوڑ دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «وَالضُّحَى * وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى * مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى» چاشت کے وقت کی قسم ہے اور رات کی قسم ہے، جب وہ چھا جائے۔ تمہارے پروردگار نے نہ تو تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:795]
فائدہ:
صحیح بخاری 1125 میں وضاحت ہے کہ قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں۔ اور صحیح بخاری 4850 میں مزید ایک اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو دو یا تین راتیں آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔ ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین دن سے آپ کے قریب نہیں آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔
یہ عورت ابولہب کی بیوی تھی جس کا نام اور اء بنت حرب تھا اور یہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بہن تھی۔ اس کی کنیت ام جمیل تھی۔ سورۃ الحب میں میں اس نکمی کافر ہ بدکردار عورت کا ہی ذکر ہے۔ اسے ﴿حمالة الحطب﴾ سے اللہ تعالیٰ نے یاد کیا ہے۔
بطور فائدہ عرض ہے کہ اس واقعہ کی مثل ایک اور واقعہ بھی ہے جو ان دونوں میں پیش آیا۔ دونوں میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ ابولہب کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کر مخاطب کیا اور جبرئیل امین کو شیطان کہا۔ معاذ اللہ۔ حالانکہ وہ خود شیطان تھی۔
انھی دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔ [صحيح البخاري 4951]
دوسرا واقعہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہے جیسا کہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ [فتح الباري: 13/3]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ داعی کو اپنا مشن نہیں چھوڑنا چاہیے، چاہے لوگ اسے جو مرضی کہتے پھریں۔ آخر کامیابی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دینی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 795   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4657  
حضرت جندب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو دو یا تین راتیں قیام نہ کر سکے تو ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگی، اے محمد! مجھے امید ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے، میں اسے دو تین رات سے تیرے قریب آتا نہیں دیکھ رہی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: قسم ہے روز روشن کی اور قسم ہے رات کی، جب وہ چھا جائے، تیرے رب نے نہ تجھے چھوڑا ہے اور نہ ناراض ہوا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4657]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ آنے والی عورت آپﷺ کے چچا کی بیوی ام جمیل بنت حرب تھی اور اس نے مشرکوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔
ان دونوں روايتوں ميں كوئی تضاد نہیں ہے،
یا مشرک بھی اس کی اس بات پر خوش تھے اس لئے ان کی طرف نسبت کردی گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4657   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1125  
1125. حضرت جندب بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبی ﷺ کے پاس آنے سے رک گئے تو قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ ) چاشت کی قسم! اور رات کی بھی جب وہ چھا جائے! تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1125]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔
اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل ؑ نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی (أم جمیل بنت حرب أخت أبي سفیان امرأة أبي لهب حمالة الحطب)
نے یہ فقرہ کہا۔
چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب ؓ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ ﷺ نے فرمایا:
ھَل أَنتِ إِلا أصبَع دُمیتِ وفي سبیلِ اللہِ ما لقیتِ۔
تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔
اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (مذکورہ ام جمیل)
کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔
اس وقت یہ سورۃ اتری:
﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ ) (الضحی: 1-3) (وحیدی)
احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دو کو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1125   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4951  
4951. حضرت جندب بن سفیان بجلی ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں سمجھتی ہوں کہ آپ کے دوست نے آپ کے پاس آنے میں دیر لگا دی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: آپ کے رب نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4951]
حدیث حاشیہ:
حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی علقمی خاندان سے ہیں جو بجیلہ کی ایک شاخ ہے، فتنہ عبداللہ بن زبیر کے چار سال بعد وفات پائی۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4951   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1125  
1125. حضرت جندب بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبی ﷺ کے پاس آنے سے رک گئے تو قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ ) چاشت کی قسم! اور رات کی بھی جب وہ چھا جائے! تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1125]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوسری حدیث پہلی کا تتمہ ہے، چنانچہ ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو ایک یا دو رات آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔
ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی:
اے محمد ﷺ! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین رات سے آپ کے قریب نہیں آتا۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4950) (2)
رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کی گفتگو کرنے والی عورت ابولہب لعین کی بیوی ام جمیل عوراء بنت حرب تھی۔
یہ عورت خود شیطان تھی جس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا:
اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4951)
اس انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دوسری عورت تھی، کیونکہ اس نے یا محمد کے بجائے یا رسول اللہ کہا اور لفظ شیطان کے بجائے صاحب کا لفظ استعمال کیا ہے، چنانچہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ تھی۔
(فتح الباري: 13/3)
درحقیقت یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔
ابولہب کی بیوی نے آپ ﷺ کو یا محمد کہا اور جبرائیل ؑ کو شیطان سے تعبیر کیا اور یہ مذاق کے طور پر تھا جبکہ سیدہ خدیجہ ؓ نے نبی ﷺ کو یا رسول اللہ کہا اور جبرائیل ؑ کو صاحب سے تعبیر کیا اور ان کا مقصد غم خواری تھا۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے تہجد کو ترک کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1125   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4950  
4950. حضرت جندب بن سفیان ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بیمار ہو گئے اور دو یا تین راتیں نہ اٹھ سکے تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد! میرا خیال ہے کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا ہے، دو یا تین راتوں سے میں اسے نہیں دیکھ سکی ہوں کہ وہ آپ کے پاس آیا ہو۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: چاشت کے وقت کی قسم! رات کی قسم جب وہ چھا جائے! آپ کو آپ کے رب نے نہ تو چھوڑا ہے اور نہ وہ (آپ سے) ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4950]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
اس سے مراد ابولہب کی بیوی ام جمیل ہے۔
چونکہ یہ عورت کافر تھی، اس لیے اس کا طرز گفتگو بھی کافرانہ ہے۔
اس نے بطور طعن و طنز کے کہا کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ آپ سے ناراض ہو گیا ہے۔
اس موقع پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی آپ کو تسلی دینے کے لیے کچھ کہا تھا جس کی وضاحت آئندہ حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4950   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4951  
4951. حضرت جندب بن سفیان بجلی ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں سمجھتی ہوں کہ آپ کے دوست نے آپ کے پاس آنے میں دیر لگا دی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: آپ کے رب نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہی ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4951]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔
چونکہ یہ مومن تھیں، اس لیے ان کا انداز گفتگو بھی مومنانہ تھا۔
انھوں نے آپ کو تسلی دینے کے لیے کہا تھا کہ آپ کے صاحب نے آپ کے پاس آنے میں دیر کر دی ہے، نیز پہلی حدیث میں ام جمیل نے یا محمد کہا تھا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ انھوں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا۔
پہلی حدیث میں کافر عورت تھی جس نے جبرئیل علیہ السلام کو شیطان کے لفظ سے تعبیر کیا جبکہ اس حدیث میں ان کے لیے صاحب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
بہرحال دونوں کا طرز کلام علیحدہ علیحدہ ہے۔
(فتح الباري: 908/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4951