Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
1. بَابُ كَيْفَ نُزُولُ الْوَحْيِ وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ:
باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟
حدیث نمبر: 4979
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَا:"لَبِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ".
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے یحییٰ بن کثیر نے ‘ ان سے سلمی بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ مجھ کو عائشہ، عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال رہے اور قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4979 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4979  
حدیث حاشیہ:
قرآن پاک کا جو حصہ ہجرت سے پہلے نازل ہوا وہ مکی کہلاتا ہے اور جو ہجرت کے بعد نازل ہوا وہ مدنی کہلاتا ہے اس اصول کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4979   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4979  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کیا ہوا عنوان دواجزاء پر مشتمل ہے:
وحی کا نزول کیسے ہوا؟ سب سے پہلے کیا نازل ہوا؟ جبکہ صحیح بخاری کے آغاز میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا:
(باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله ‏صلى الله عليه وسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کا آغاز کیونکر ہوا۔
ان دونوں میں فرق کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نزول کا تقاضا ہے کہ جس ہستی کی ذریعے سے وحی نازل کی گئی اس کا وجود تھا، یعنی فرشتہ وحی۔
اور وحی عام ہے، خواہ انزال کی شکل میں ہو یا الہام کی صورت میں، وہ وحی حالت بیداری میں ہویا خواب کی صورت میں۔
(فتح الباري: 6/9)

ہمارے رجحان کے مطابق اس عنوان میں یہ ملحوظ ہے کہ نزول قرآن کی کیفیت کیا تھی جسے فضائل قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
وہ یہ ہے کہ قرآن کو ایک ہی بار نہیں بلکہ آہستہ آہستہ حسب ضرورت اتارا گیا ہے۔
اس اعتبار سے زمانہ وحی تئیس (23)
برس ہے اور مسلسل وحی کا زمانہ بیس (20)
برس پر محیط ہے، جیسا کہ حدیث بالا میں ہے۔
اس میں پہلے تین برسوں کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ پہلی وحی کے بعد تقریباً تین برس تک وحی کا سلسلہ رک گیا تھا، جسے فترت وحی کہا جاتا ہے۔
اگرچہ فرشتے کی آمد و رفت رہتی تھی لیکن مسلسل وحی کا سلسلہ تین سال بعد شروع ہوا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اصول تدریج کے مطابق بیس برس میں مکمل ہوا ہے اور یہ اس با برکت کتاب کی فضیلت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کافر کہتے ہیں کہ یہ سارا قرآن ایک ہی بار رسول پر کیوں نہ اتارا گیا؟ بات ایسی ہی ہے اور یہ اس لیے کہ ہم آپ کی ڈھارس بندھاتے جائیں اور اس لیے کہ بھی ہم آپ کوپڑھ کرسناتے جائیں اور اس لیے بھی کہ جب بھی یہ کافر آپ کے پاس کوئی اعتراض لائیں تو اس کا ٹھیک اور برجستہ جواب اور بہترین توجیہ ہم آپ کو بتادیں۔
(الفرقان: 32۔
33)

اس آیت میں آہستہ آہستہ قرآن اتارنے کے تین فائدے بیان ہوئے ہیں:
۔
حوصلہ شکن حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے اور ڈھارس بندھانے کی ضرورت کو پورا کیا گیا۔
۔
قرآن یاد کرنا، اسے سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہوکر اپنے پورے اندازِ زندگی میں تبدیلی کرنا اسی صورت میں ممکن تھا۔
۔
کفار کے اعتراضات کا بر وقت جواب دینا اور ان کے مطالبات کی حقیقت واضح کرنا بھی مقصود تھا۔

دیگر روایات سے پتا چلتا ہے وحی کا آغاز ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ سے ہوا، اس کے بعد سلسلہ وحی مؤقف ہوگیا،پھر ﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ سے دوبارہ مسلسل وحی آنا شروع ہوئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4979