Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ: {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! اب تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کیا کرو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے“۔
حدیث نمبر: 4970
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ، فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ، قَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا، وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، فَقَالَ لِي: أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ؟ فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: فَمَا تَقُولُ، قُلْتُ: هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ، قَالَ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض (عبدالرحمٰن بن عوف) کو اس پر اعتراض ہوا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لیے بلایا ہے، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے «إذا جاء نصر الله والفتح‏» الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا «إذا جاء نصر الله والفتح‏» کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ اس لیے آپ اپنے پروردگار کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4970 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4970  
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا اب تم مجھ کو کیا ملامت کرتے ہو اگر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو تمہارے برابر جگہ دی اور تمہارے ساتھ بلایا۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ اہل فضل اور اہل علم قابل تعظیم ہیں گو ان کی عمر کم ہو اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ علم کے بڑے قدردان تھے اور ہر ایک بادشاہ یا خلیفہ کو علم کی قدردانی اور عالموں کی تعظیم اور تکریم ضروری ہے۔
افسوس مسلمان جو تباہ ہوئے اور غیر قوموں کے دست نگر بن گئے وہ جہالت اور کم علمی ہی کی وجہ سے اور اس قدر تباہی پر اب بھی مسلمان امراء علم کی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ جاہلوں اور بے وقوفوں کو اپنا مصاحب بناتے ہیں۔
عالم کی صحبت سے گھبراتے ہیں۔
لا حولَ وَ لَا قُوةَ إلا باللہ (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4970   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4970  
حدیث حاشیہ:
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
کیا تجھے معلوم ہے کہ آخری آخری مکمل سورت کون سی نازل ہوئی تھی؟ میں نے کہا:
﴿إِذَا جَآءَ نَصْرُ ٱللَّـهِ وَٱلْفَتْحُ﴾ ہے۔
آپ نے فرمایا:
ہاں یہی سورت ہے۔
(صحیح مسلم، التفسیر، حدیث: 7546(2024)
اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سمجھ لیا کہ میری بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہے، اب میں عنقریب اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں، چنانچہ اسی سال حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
شاید آئندہ سال تم میں موجود نہ ہوں گا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل فضل اور اہل علم قابل تعظیم ہیں اگرچہ وہ عمر میں چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقام و مرتبہ دیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4970   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3627  
3627. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ حضرت عمرخطاب ؓ انھیں اپنے بہت قریب رکھتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے (اعتراض کرتے ہوئے)کہا: ان جیسے تو ہمارے بیٹے بھی ہیں(ان کی کیا خصوصیت ہے؟)انھوں نے فرمایا: ان کا مقام تم جانتے ہو۔ پھر انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے متعلق پوچھا: جس وقت اللہ کی مدد اور فتح آجائے گی۔حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات کی اطلاع دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس آیت کریمہ سے بھی وہی کچھ جانتا ہوں جو آپ جانتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3627]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ کو جوبات بتلائی گئی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے وہ پوری ہوئی، اللہ جب چاہے کسی بندے کو کچھ آگے کی باتیں بتلادیتا ہے مگر یہ غیب دانی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی غیب دان کہنا کفر ہے جیسا کہ علماءاحناف نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔
غیب داں صرف اللہ ہے۔
انبیاءاولیاءسب اللہ کے علم کے محتاج ہیں۔
بغیر اللہ کے بتلائے وہ کچھ بھی بول نہیں سکتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3627   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3627  
3627. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ حضرت عمرخطاب ؓ انھیں اپنے بہت قریب رکھتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے (اعتراض کرتے ہوئے)کہا: ان جیسے تو ہمارے بیٹے بھی ہیں(ان کی کیا خصوصیت ہے؟)انھوں نے فرمایا: ان کا مقام تم جانتے ہو۔ پھر انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے متعلق پوچھا: جس وقت اللہ کی مدد اور فتح آجائے گی۔حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات کی اطلاع دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس آیت کریمہ سے بھی وہی کچھ جانتا ہوں جو آپ جانتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3627]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا مقصد تھا کہ ہم شیوخ ہیں اور یہ ایک نوخیز لڑکا ہے آپ اسے کیوں ہم سے آگے بٹھا تے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے بتایا میں اسے اس کے علم کی وجہ سے آگے بٹھاتا ہوں اور اپنے قریب کرتا ہوں اور علم ہر اس انسان کو بلند کرتا ہے جو بلند نہ ہو۔
چنانچہ انھوں نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر پوچھی تو انھوں نے وہی بتائی جسے حضرت عمر بھی جانتے تھے۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی دعا کا نتیجہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو چھاتی سے لگا کر یہ دعا فرمائی تھی۔
اے اللہ! اسے دین میں سمجھ عطا کر۔
(صحیح البخاري، الوضو، حدیث: 143)
اے اللہ!اسے اپنی کتاب کا علم دے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 75)
اے اللہ! اسے حکمت سے مالا مال کر دے۔
(صحیح البخاري، فضائل، حدیث: 3756)
واقعی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت تمام ہو چکی ہے اور دین مکمل ہو گیا ہے اب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔
آپ نے حضرت ابن عباس ؓ کوبتا دیا تھا کہ اس میں میری وفات کی طرف اشارہ ہے آپ نے وقوع سے پہلے خبر دی چنانچہ اس کے مطابق ہی ہوا۔
یہ آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3627   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4430  
4430. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عمر بن خطاب ؓ مجھے اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے انہیں کہا: ان جیسے ہمارے بھی بیٹے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یقینا تم ان کا مقام جانتے ہو۔ پھر آپ نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا: ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ ) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات کی اطلاع دی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں بھی اس آیت کریمہ سے وہی جانتا ہوں جو آپ جانتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4430]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس سورت کے متعلق دریافت فرمایا:
تو کچھ حضرات نے جواب دیا کہ اس سے مراد ہماری فتح و نصرت ہے جب شہر اور محلات فتح ہوں تو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد و ثناء کریں اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور کچھ حضرات نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا لیکن کچھ حضرات بالکل خاموش رہے تو آپ نے مجھے فرمایا:
اے ابن عباس ؓ! تم اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا:
اس سے مراد فتح مکہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی وفات قریب ہونے کی اطلاع ہے یعنی جب مکہ فتح ہو جائے تو آپ کی موت بھی قریب ہوگی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4294)
بہر حال ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کا ذکر ہے اس لیے انھیں بیان کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4430