صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
88. بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي الْمَسْجِدِ وَغَيْرِهِ:
باب: مسجد وغیرہ میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے قینچی کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 481
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے ابی بردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انہوں نے اپنے دادا (ابوبردہ) سے، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 481 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 481
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی جس کا تعلق عمومی حالت کے ساتھ ہے جس میں مسجد کا ذکر نہیں ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صرف مسجد میں تشبیک کرنا ثابت کرتی ہے، گویا اس سے معلوم ہوا کہ جب مسجد میں تشبیک ثابت ہوا تو عام حالت میں کیوں کر ثابت نہ ہو گا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اورد فيه حديث ابي موسيٰ، وهو دال على جواز التشبيك مطلقا، و حديث ابي هريرة وهو دال على جوازه فى المسجد، وإذا جاز فى المسجد فهو فى غير اجوز .» [فتح الباري، ج1، ص744]
اس مسئلے پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو مطلق جواز التشبیک پر دال ہے اور ابوهريرة رضی اللہ عنہ والی حدیث مسجد میں تشبیک پر دال ہے، لہٰذا جب مسجد میں تشبیک دینا جائز ہوا تو بالاولیٰ ہر جگہ جائز ہوا۔
◈ امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولعل مراده جواز التشبيك مطلقا، لأنه إذا جاز فعله فى المسجد ففي غيره اولي بالجواز .» [الكواكب الدرسري، ج4، ص129]
بعین یہی تطبیق بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ نے بھی دی ہے۔ دیکھئے: [مناسبات تراجم البخاري، ص47]
شاید کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلق تشبیک کے جواز کے قائل ہیں، کیوں کہ جب تشبیک مسجد میں جائز ہے تو پھر بالاولی ہر جگہ جائز ہے۔
بدیگر صورت اگر غور کیا جائے تو مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انگلیوں میں تشبیک کرنا کسی مسئلے کی وضاحت کے لیے تھا۔
صاحب ”فتح المنان“ نے ابن المنیر رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا، آپ لکھتے ہیں: «والذي فى هذه الاحاديث انما المقصود التعليم والاخبار والتمثيل و تصوير المعني فى النفس بصورة الحس» [فتح المنان، ج6، ص449]
”یعنی تشبیک کرنے والی احادیث میں کسی چیز کی تعلیم، خبر، تمثیل یا کسی حسی چیز کی صورت (واضح کرنا) مقصود ہے (جو تشبیک نہ کرنے والی احادیث کے متعارض نہیں ہیں)۔“
فائدہ:
بعض علماء نے فرمایا کہ ممانعت کی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جیسے ابوداؤد، امام دارمی، اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«عن ابي ثمامه الحناط، قال: ادركنى كعب بن عجرة بالبلاط وانا مشبك بين اصابعى، فقال ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اذا توضا احدكم ثم خرج عامدا الى الصلاة فلا يشبك بين اصابعه» [سنن الدارمي مع فتح المنان ج 2 ص 448 رقم 1523]
”ابوثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ملاقات ہوئی کعب بن عجرۃ کی البلاط (یہ ایک جگہ ہے مسجد نبوی اور مدینے کے بازار کے درمیان) میں اور میں انگلیوں میں تشبیق دے رہا تھا تو کعب بن عجرہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور وہ نماز کے لئے نکلے تو اپنی انگلیوں میں تشبیک نہ کرے۔“
یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے حسن ہے دارمی کے علاوہ بھی دیگر کتب میں موجود ہے دیکھئے:
➊ سنن الکبری للبیھقی 230/3
➋ مسند أحمد رقم 18168
➌ ابوداؤد فى الصلاة 562
➍ ابن حبان کما فی الاحسان لابن بلسان رقم 2036
➎ ابن خزیمہ 441
➏ معجم الکیر للطبرانی برقم 333
ان تمام طرق کو ملانے کے بعد یہ سند حسن درجے تک پہنچتی ہے اس مسئلے پر جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے بھی ایک رسالہ لکھا بنام «حسن التسليك فى حكم التشبيك» اس رسالہ کو ”الحاوی للفتاوی“ میں ضم کر دیا گیا ہے اور اس میں کئی علمی گفتگو کے نکا ت کو واضح کیا گیا ہے، لہٰذا بظاہر انھی اور اجازت کی احادیث میں تعارض معلوم ہوتا ہے، لیکن غور سے مطالعہ کے بعد الله کی توفیق سے اس میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔
◈ علامہ مغلطائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والتحقيق انه ليس بين حديث النهي عن التشبيك و بين تشبيك صلى الله عليه وسلم بين اصابعه لان النهي انما ورد عن فعله فى الصلاة اوفي المضي اليها . . . .» [الحاوي للفتايٰ للسيوطي ج 2 ص 10]
”تحقیق بات یہ ہے کہ تشبیک سے روکنے والی احادیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی انگلیوں میں تشبیک کرنا (تعارض نہیں ہے) کیوں کہ جو منع کا حکم ہے وہ اس لیے کہ جو نماز پڑھ رہا ہو یا پھر نماز کے لیے گزر رہا ہو۔“
◈ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«التي وردت فى النهي عن التشبيك فى المسجد ولكن التحقيق انها لا تعارضها . . . .» [المتواري ص 91]
”جو احادیث تشبیک کرنے سے روکتی ہیں مسجد میں تحقیق یہ احادیث متعارض نہیں ہیں (ان احادیث سے جس میں اجازت مروی ہے)۔“
◈ مزید فرماتے ہیں کہ:
«والذي فى الحديث انما هو المقصود التمثيل، والتصوير المغني فى النفس بصورة الحس .» [ايضاً]
ان گفتگو اور شارحین کی وضاحت سے یہ بات واضح ہوئی کہ ممانعت والی احادیث اور اجازت والی احادیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے۔ جو شخص نماز پڑھ رہا ہو یا نماز کے لیے جا رہا ہو وہ انگلیوں میں قینچی نہ کرے۔ «والله اعلم»
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 165
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:481
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلی حدیث میں واقد اپنے والد محمد بن زید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا۔
اس روایت میں یہ شک تھا کہ ابن عمر ؓ سے بیان کی گئی ہے یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے؟امام بخاری ؒ نے اس شک کو دور کرنے کے لیے نیز تشبیک کی وجہ بتانے کے لیے دوسری روایت بیان کی کہ عاصم بن محمد نے یہ روایت اپنے والد محمد بن زید سے سنی، لیکن وہ اسے یاد نہ رہی، پھران کی بھائی واقد بن محمد نے ٹھیک ٹھیک طریقے پر محمد بن زید ہی سے روایت بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے کہا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اے عبداللہ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم ایسے لوگوں کے درمیان رہ جاؤ گے جو کوڑے کرکٹ اور بھوسے کی طرح ہوں گے؟“ اس روایت سے شک دور ہوگیا کہ اسے بیان کرنے والے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بلکہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ہیں۔
پھر تشبیک کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مضمون سمجھانے کے لیے تمثیل کے طور پر انگلیوں کوانگلیوں میں ڈالا۔
چنانچہ یہ روایت امام حمیدی ؒ کی کتاب الجمع بین الصحیحین میں بایں اضافہ نقل ہوئی ہے کہ ان ردی اور بے کار لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ ان کے عہد وپیمان اور ان کی امانتیں تباہ ہوچکی ہوں گی اور وہ اس طرح ہوگئے ہوں گے، پھر آپ نے”اس طرح“ کی وضاحت کے لیے اپنی انگلیوں کوقینچی بنایا۔
(فتح الباری: 732/1)
2۔
بعض روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتا ہے،پھر مسجد کی طرف جانے کی نیت لے کر گھر سے نکلتاہے تو وہ اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے کیونکہ وہ نماز ہی میں ہے۔
“ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 386)
ابن ابی شیبہ میں مزید وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے توتشبیک نہ کرے کیونکہ یہ عمل شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔
“ لیکن اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں۔
امام بخاری ؒ نے یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ جن روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔
ان کی صحت محل نظر ہے یا وہ ممانعت حالت نماز پر محمول ہے، نیز اگر کسی صحیح مقصد کے پیش نظر کبھی ایسا کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
جیسا کہ پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک مقصد کی وضاحت کے لیے تشبیک فرمائی۔
امام بخاری ؒ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے ثابت کیا کہ ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔
پھر حدیث ابوہریرہ ؓ سے ثابت فرمایا کہ مسجد میں ایسا عمل کیا جاسکتا ہے۔
اس بنا پر ابن منیر نے کہا ہے کہ ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ منع کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فضول اور بے کار طور پر ایسا کرنا منع ہے، اگر کسی حکمت کے پیش نظر ایسا کیا جائے تو جائز ہے، مثلاً:
اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں ہے، یا تفہیم کے لیے تمثیل کے طور پر معنویات کو محسوسات میں تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیاجائے۔
جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو باہم شیر وشکر رہنے کے متعلق بیان فرمایا، پھر ہاتھوں کو قینچی بناکر بتایا کہ مسلمان باہمی طور پر ایسےملے جلے رہتے ہیں جس طرح عمارت کے پتھر ایک دوسرے کو اٹھائے رہتے ہیں، یاگہرے غور وخوض کی وجہ سے بے ساختہ ایسا ہوجائے۔
جیسا کہ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے ایسے حالات میں تشبیک کی ممانعت نہیں ہے۔
نوٹ:
۔
حدیث ابوہریرہ ؓ سےمتعلق دیگر مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 481
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2561
´خازن کے اجر کا بیان جب وہ اپنے مالک کی اجازت سے صدقہ کرے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے“، نیز فرمایا: ”امانت دار خازن جو خوش دلی سے وہ چیز دے جس کا اسے حکم دیا گیا ہو تو وہ بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2561]
اردو حاشہ:
(1) اکیلی اکیلی اینٹ کوئی وقعت نہیں رکھتی مگر جب ایک دوسرے سے مل جائیں تو مضبوط دیوار بن جاتی ہے۔ اور دیواریں مل کر چار دیواری اور چھت کے ساتھ مکمل مکان بن جاتا ہے جو ہر قسم کے طوفانوں کا بلا کھٹکے مقابلہ کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے۔
(2) ”صدقہ کرنے والوں میں۔“ کیونکہ ظاہراً تو صدقہ وہی کر رہا ہے۔ صدقہ کرنے والوں سے مراد سب صدقہ کرنے والے یا یہ دو شخص مالک اور خزانچی ہیں۔ یاد رہے کہ مالک کو اس کی ملکیت کی بنا پر ثواب ملے گا اور خزانچی کو اس کے فعل پر ضروری نہیں کہ دونوں ثواب میں برابر ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2561
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6586
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومنوں کی باہمی محبت کرنے ایک دوسرے پر رحم کرنے اور شفقت و مہربانی کرنے میں تمثیل جسم انسانی کی طرح ہے، جب اس کا کوئی عضو بیمار پڑتا ہے، تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی خاطر سارا جسم بے خوابی اور بخار کو دعوت دیتا ہے۔ یعنی جسم کے باقی حصے بھی بے خوابی اور بخار میں شریک ہو جاتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6586]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
ایمان والوں میں باہم ایسی محبت و مودت،
ایسی رحمت و شفقت اور ہمدردی و خیرخواہی اور ایسا دلی تعلق ہونا چاہیے کہ دیکھنے والی آنکھ ان کو اس حالت میں دیکھے کہ اگر ان میں سے کوئی دکھ،
درد یا تکلیف و مشکل میں مبتلا ہے تو سب اس کو اپنا دکھ،
درد اور مصیبت خیال کریں اور سب اس کی پریشانی و بے قراری میں مبتلا ہوں اور اس کو اپنے دکھ،
درد کی طرح دور کرنے کی کوشش کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6586
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2446
2446. حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔“ پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2446]
حدیث حاشیہ:
کاش! ہر مسلمان اس حدیث کو یاد رکھتا اور ہر مومن بھائی کے ساتھ بھائیوں جیسی محبت رکھتا تو مسلمانوں کو یہ دن نہ دیکھنے ہوتے جو آج کل دیکھ رہے ہیں۔
اللہ اب بھی اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اپنے پیارے رسول ﷺ کی ہدایت پر عمل کرکے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کریں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2446
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2446
2446. حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔“ پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2446]
حدیث حاشیہ:
مظلوم کی مدد کرنا اسے تقویت دیتا ہے۔
اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد محبت و اخوت سے ایک دوسرے کو ملائے اور نفرتیں پھیلا کر انہیں جدا جدا نہ کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں میں ڈال کر اس عمل کی تقویت کو سمجھایا ہے۔
بعض احادیث میں اس کیفیت کو "تشبیک شیطان" قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب بطور عبث اور بے ہودہ حرکت کیا جائے۔
جب کسی کو کوئی بات سمجھانی مقصود ہو تو انگلیوں کی مذکورہ کیفیت بنانا جائز اور درست ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2446