صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِهِ: {خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”انسان کو اللہ نے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا“۔
حدیث نمبر: 4955
حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} سورة العلق آية 1-3".
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب دکھائے جانے لگے۔ پھر آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم» کہ ”آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے (سب کو پیدا کیا ہے) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4955 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4955
حدیث حاشیہ:
اسی پہلی وحی میں آپ کو تحصیل علم کی رغبت دلائی گئی۔
ساتھ ہی انسان کی خلقت کو بتلایا گیا۔
جس میں اشارہ تھا کہ انسان کا فرض اولین یہ ہے کہ پہلے اپنے رب کی معرفت حاصل کرے پھر خود اپنے وجود کو اور اپنے نفس کو پہچانے۔
تحصیل علم کے آداب پر بھی اس میں لطیف اشارے ہیں۔
تدبروا یا أولی الألباب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4955
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4955
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”میرے خیال کے مطابق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ یحییٰ بن بکیر نے بھی آپ کو اس طرح بیان نہیں کیا ہو گا۔
اور نہ انھوں نے اس قسم کا اختصار ہی کیا ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا تصرف ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس قسم کے اختصارکو جائز سمجھتے ہیں۔
“ (فتح الباري: 8\923)
2۔
بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کے متعلق بتانا چاہتے ہیں کہ وہ کس پس منظر میں نازل ہوئی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4955
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3632
´باب`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ پہلی وہ چیز جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتداء ہوئی اور جس وقت اللہ نے اپنے اعزاز سے آپ کو نوازنے اور آپ کے ذریعہ بندوں پر اپنی رحمت و بخشش کا ارادہ کیا وہ یہ تھی کہ آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر صبح کے پو پھٹنے کی طرح ظاہر ہو جاتی تھی ۱؎، پھر آپ کا حال ایسا ہی رہا جب تک اللہ نے چاہا، ان دنوں خلوت و تنہائی آپ کو ایسی مرغوب تھی کہ اتنی مرغوب کوئی اور چیز نہ تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو خواب بھی آپﷺ دیکھتے وہ بالکل واضح طور پر پورا ہو جاتا تھا،
یہ آپﷺ کی نبوت کی ابتدائی حالت تھی،
پھر کلامی وحی کا سلسلہ ﴿إِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ﴾ سے شروع ہو گیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3632
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 403
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: کہ وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچے خوابوں سے ہوا، رسول اللہ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے، اس کی تعبیر روشن صبح کی طرح ہوتی۔ پھر خلوت گزینی آپ کے نزدیک محبوب بنا دی گئی اور آپ غارِ حرا میں تنہائی اختیار کرتے، اور اپنے اہل کی طرف واپسی سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں گناہ سے بچتے، یعنی: بندگی کرتے، اور اس کے لیے خورد ونوش کا سامان لے جاتے۔ پھرخدیجہؓ کے پاس واپس آکر اتنی ہی راتوں کے لیے پھر سامانِ خوردونوش لے جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:403]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
الْوَحْيُ:
وحی کا لغوی معنی ہے:
انتہائی خفیہ یا پوشیدہ طریقے سے خبر دینا،
اور اس کا اطلاق اشارتاً،
کتابت،
مکتوب،
رسالہ اور الہام و القاء پر بھی ہوتا ہے۔
اور شرعی طور پر:
اس کلام کو وحی کہا جاتا ہے جو کسی نبی یا رسول پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو۔
(2)
الرُّؤْيَا الصَّادِقَة:
سچا خواب۔
جو چیز آپ خواب میں دیکھتے،
وہ ٹھیک اسی طرح بیداری میں سامنے آ جاتی۔
(3)
فَلَق الصُّبْحِ:
سپیدہ سحر،
صبح کی روشنی،
یعنی وہ خواب بالکل واضح ہوتا،
اس میں کسی قسم کا خفا و پوشیدگی نہ ہوتی۔
(4)
حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ:
تنہائی اور خلوت سے محبت پیدا ہو گئی،
تاکہ پورے اطمینان،
فراغت قلبی سے سوچ و بچار کا موقع ملے،
اور مالوفات انسانی سے الگ تھلگ ہو کر دل میں خشوع و خضوع پیدا ہو۔
(5)
يَتَحَنَّثُ:
گناہ سے بچنا،
حنث گناہ کو کہتے ہیں،
اور تحنث،
گناہ سے اجتناب کو،
گویا عبادت انسان کو گناہ سے بچاتی ہے،
اس لیے اس کی تفسیر تعبد (بندگی کرنا)
سے کی گئی ہے۔
(6)
اللَّيَالِيَ أُوْلَاتِ الْعَدَدِ:
اس کام میں کئی راتیں صرف فرماتے،
کبھی کبھی پورا ماہ رمضان،
اسی طرح گزر جاتا۔
(7)
حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ:
اچانک آپ کے پاس فرشتہ وحی لے کر آ گیا،
آپ کو اس کی امید یا توقع نہ تھی۔
تقدیر اللہ کے علم کے اعتبار سے تو ہر چیز آسمان و زمین کی تخلیق سے بھی پچاس ہزار سال پہلے،
لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ہے،
جس میں نبوت،
ولایت،
سعادت و شقاوت،
نیکی و بدی ہر چیز کا ریکارڈ ہے،
اس اعتبار سے تو آپ کیا،
ہر نبی،
ہر صحابی،
ہر ولی بلکہ ہر انسان کا مقام و مرتبہ پہلے سے متعین ہے،
لیکن ہر چیز کا ظہور اپنے مقررہ وقت پر ہوتا ہے۔
ہر انسان کی پیدائش اور موت کا وقت مقرر ہے،
لیکن اس کا ظہور اپنے اپنے وقت پر ہو گا۔
اسی طرح آپ ﷺ کی نبوت کا وقت مقرر تھا،
لیکن جب آپ کی طرف وحی کی آمد شروع ہوئی،
تو آپ نبی بن گئے،
وحی کی آمد سے پہلے آپ نبی نہیں تھے (اگرچہ تقدیر اور اللہ کے علم میں نبی تھے)
۔
اس لیے یہ کہنا:
کہ آپ ﷺ ولادت کے وقت بلکہ اس وقت نبی تھے کہ جب ابھی آدم علیہ السلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے،
یہ درست نہیں ہے،
اگر آپ پہلے ہی نبی تھے،
تو پھر اس بحث کی ضرورت کیا ہے،
کہ آپ غار حرا میں عبادت،
کس شریعت کے مطابق کرتے تھے،
نیز جو حالات پہلی وحی کے وقت پیش آئے،
کیا وہ بعد میں بھی پیش آئے؟ جب آپ پہلے سے نبی تھے،
اور آپ کو اس کا علم تھا،
تو پھر یہ صورت حال کیوں پیش آئی۔
(8)
مَا أَنَا بِقَارِئٍ:
میں پڑھا ہوا نہیں ہوں،
اکثر علماء نے (ما)
کو نافیہ قرار دیا ہے،
اور اس کا معنی ہے "مَا أُحْسِنُ الْقِرَاءَةَ"،
میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکتا،
اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے،
جب کسی کو کوئی لکھی ہوئی چیز دی جائے اور کہا جائے پڑھ۔
یا ویسے ہی اسے کہا جائے پڑھ،
لیکن اگر کوئی انسان،
اس کو لفظ کی شناخت کرا کر کہے:
پڑھ! یا عبارت بول کر کہے:
اس عبارت کو دہرا،
تو وہ پڑھ سکتا ہے،
اس لیے جب فرشتے نے وحی کے الفاظ آپ کے سامنے پڑھے،
تو آپ نے بھی پیچھے پڑھ دئیے۔
بعض علماء نے اس کا معنی استفہامیہ کیا ہے،
جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ میں (كَيْفَ أَقْرَاءُ)
”میں کیسے پڑھوں“ (میں تو اپنے طور پر پڑھ نہیں سکتا)
دوسری روایت ہے (مَاذَا أَقْرَاءُ)
”میں کیا پڑھوں۔
“ تمام متقدمین شارحین کی تصریحات کے باوجود،
اور یہ ماننے کے باوجود کہ آپ ﷺ اُمی تھے۔
اگر بالفرض آپ پڑھے لکھے ہوتے تو لوگوں کو آپ کی نبوت میں شک پیدا ہوتا۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے پڑھنے سے انکار فرمایا،
کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں،
میری عبادت میں خلل پیدا ہوتا ہے،
جب چوتھی بار جبرائیل علیہ السلام نے ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کہا،
تب آپ کا ذہن اس طرف متوجہ ہوا کہ یہ بھی تو اسی ذات کا نام لے رہا ہے جس کے مشاہدہ اور مطالعہ میں مستغرق ہوں،
سو آپ ﷺ نے پڑھ لیا،
تو کیا جب جبریل علیہ السلام نے پہلی دفعہ دبوچا تھا،
اس سے آپ کی عبادت میں خلل پیدا نہیں ہوا تھا،
اور آپ کے جواب سے آپ کی عبادت متاثر نہیں ہوئی تھی،
اور آپ تو پہلے سے نبی تھے،
تو آپ کو پہلے کیوں پتہ نہ چلا۔
(9)
حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ:
جَُهْدٌ،
جیم پر فتح اور ضمہ دونوں پڑھنا درست ہیں،
معنی ہو گا غایت (انتہا)
اور مشقت،
دال پر اگر زبر ہو تو معنی ہو گا،
جبریل نے اپنی پوری قوت صرف کر دی،
اس نے پوری طاقت سے دبایا تھا،
چونکہ وہ انسانی شکل و صورت میں تھا،
اس لیے اس میں قوت بھی انسانی تھی کوئی انسان،
ملکی قوت و طاقت کو برداشت نہیں کر سکتا،
اور نہ ہی فرشتہ کو مشقت لائق ہوتی ہے۔
اگر دال پر پیش ہو تو معنی ہو گا:
میں نے دباؤ سہنے میں اپنی پوری طاقت نچوڑ دی،
میری طاقت آخری مراحل میں داخل ہو گئی۔
ممکن ہے پہلی دفعہ:
غط (دباؤ)
دنیا کے خیالات و تفکرات سے رخ پھیرنے کے لیے ہو۔
دوسری دفعہ:
آپ کے خیالات و توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے اور تیسری دفعہ:
اپنے سے مانوس کرنے کے لیے کیا ہو۔
(ارشاد الساری: 1/63) (10)
تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ:
بَوَادِر،
بَادِرَۃٌ کی جمع ہے،
شانے کے گوشت کو کہتے ہیں،
وہ گھبراہٹ اور اضطراب کی وجہ سے ہل رہا تھا،
(11)
زَمِّلُونِي:
مجھے کپڑے میں لپیٹ دو یا مجھ پر کپڑا ڈال دو۔
(12)
الرَّوْعُ:
گھبراہٹ،
پریشانی۔
(13)
لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي:
فرشتے کے دباؤ اور گھبراہٹ کی بنا پر مجھے اپنی جان کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا،
اس فقرہ کا تعلق غارِ حرا،
میں گزرنے والے حالات سے ہے،
کیونکہ یہ ماضی کا صیغہ ہے،
اور اس واقعہ کی شدت کو بیان کرنا مقصود ہے۔
اگر اس کا معنی حال و استقبال کا لیا جائے جیسا کہ حضرت خدیجہ ؓ کے جواب سے محسوس ہوتا ہے،
تو پھر معنی یہ ہو گا:
”کہ مجھے خطرہ ہے کہ میں اس عہدہ اور ذمہ داری کو کما حقہ ادا نہیں کر سکوں گا،
یا اس عظیم ذمہ داری کو اٹھا نہیں سکوں گا۔
“ تو تب حضرت خدیجہ ؓ نے کہا،
اگر آپ اس ذمہ داری کے اہل نہ ہوتے یا اس کو ادا نہ کر سکتے تو یہ ذمہ داری آپ پر ڈالی ہی نہ جاتی،
آپ جیسی صفات عالیہ اور اخلاق حسنہ کے مالک کو اللہ تعالیٰ رسوا نہیں کرے گا،
جس پر ذمہ داری ڈالی جائے اور وہ اس کو ادا نہ کر سکے،
تو یہ چیز اس کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہے،
اس لیے یہ ممکن نہیں کہ آپ اس ذمہ داری کو پورا نہ کر سکیں۔
(14)
تَحْمِلُ الْكَلَّ:
كَلّ،
بوجھ۔
﴿هُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ﴾ ”وہ اپنے آقا کے لیے بوجھ ہے۔
“ یعنی:
آپ کمزوروں،
یتیموں اور بے کسوں کی مدد و اعانت کرتے ہیں،
ان کو نان و نفقہ مہیا کرتے ہیں۔
(15)
تُكْسِبُ الْمَعْدُومَ:
كَسَبَ اور اكْسَبَ کا معنی ہوتا ہے کسی کو کما کر دینا،
معدوم،
اگر محتاج کے معنی میں ہو یعنی فقیر و تنگدست،
تو پھر معنی ہو گا:
”فقیر و قلاش کو کما کر دیتے ہیں“،
کیونکہ معدوم غیر موجود کو کہتے ہیں اور فقیر و محتاج،
لا شیء معدوم و معدم کے معنی میں آ جاتا ہے،
یا معنی ہو گا کہ آپ نایاب چیزیں دیتے ہیں۔
آپ جیسی تعلیمات اور ہدایات کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتیں،
اس صورت میں کَسَبَ ثلاثی مجرد سے ہو گا،
اور اس کو ثلاثی مزید فیہ سے مانیں،
تو مفعول اول محذوف ہو گا اور معدوم کا موصوف بھی محذوف ہو گا۔
تُكْسِبُ غَيْرَكَ الْمَالَ الْمَعْدُوْمَ:
”دوسروں کو نایاب مال کما کر دیتے ہیں۔
“ (16)
نَوَائِبُ الْحَقِّ:
نَوَائِبٌ،
نَائِبَةٌ کی جمع ہے،
حادثہ اور مصیبت کو کہتے ہیں،
کہ اگر کسی کو حق کی بنا پر مصیبت سے دوچار ہونا پڑے،
تو آپ اس کی اعانت کرتے ہیں،
غلط کاموں میں مدد نہیں کرتے۔
(17)
تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
آپ کی بعثت سے پہلے اس نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔
(18)
نَامُوسٌ:
رازداں،
خیر کے رازداں کو ناموس اور شر کے رازداں کو جاسوس کہتے ہیں۔
(19)
الْجَذَعُ:
طاقتور نوجوان۔
(20)
نَصْرًا مُؤَزَّرًا:
مضبوط اور قوی مدد،
بھرپور طور پر ساتھ دینا۔
فوائد ومسائل:
(1)
وحی کی آمد سے پہلے آپ کو اس کے لیے تیار کیا گیا،
آپ کے دل میں یکسوئی اور خلوت گزینی کی محبت پیدا کی گئی،
تاکہ آپ الگ تھلگ ہو کر یکسوئی کےساتھ غور وفکر کے عادی بن جائیں،
اور لوگوں سے میل جول کم ہوجائے،
دل کے اندر صفائی پیدا ہوجائے۔
(2)
سچے خوابوں کے ذریعہ رشد وہدایت کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ طلوع شمس سے پہلے سے سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے۔
(3)
جبرئیل علیہ السلام اچانک وحی لے کر آئے اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ آئندہ وحی کا تحمل آسان ہوجائے،
اور کچھ عرصہ کے لیے وحی بند ہوگئی،
تا کہ آپ کے دل میں اس کے حصول کی محبت وشوق بڑھے۔
محبوب چیز ایک دفعہ حاصل ہوجائے،
پھر چھن جائے تو پھر اس کے حصول کا اشتیاق بہت بڑھ جاتا ہے،
اس بنا پر وحی کی بندش کے دور میں آپ غمگین ہوجاتے تھے اورجبریل علیہ السلام سامنے آکر آپ کے غم وحزن کو ہلکا کرتے تھے۔
(4)
حضر ت خدیجہ ؓ نے آپ کی چھ صفات کمال بیان کی ہیں،
جو آپ کی کامیابی وکامرانی کی ضامن تھیں:
(1)
صلہ رحمی۔
(2)
صدق مقال۔
(3)
ضعیفوں اور ناتواں لوگوں کی مدد ونصرت۔
(4)
محتاجوں فقیروں کی اعانت۔
(5)
مہمان نوازی۔
(6)
پیش آمدہ مصائب میں تعاون،
اور یہی صفات آج بھی دین کی تبلیغ اور نشر واشاعت کی ضامن ہیں،
اور مسلمان ان کو اپنا کر پوری دنیا میں دین کو غالب کر سکتے ہیں،
خاص طور پر علماء جو آپ کے وارث ہیں،
ان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہیں۔
(5)
دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے فیصلہ کن چیز انسان کی سیرت وکردار ہے،
آپ ﷺ نے خدیجہ ؓ کونبوت کے تسلیم کرنے کی دعوت نہیں دی،
محض نزول وحی کا واقعہ سنایا اور اپنے اوپر گزرنے والی کیفیات سے آگاہ کیا،
اس نے خود بخود آپ کی نبوت کو تسلیم کیا،
بلکہ اپنے خیال کے مطابق آپ کو تسلی دی اور مزید اطمینان کے لیے اپنے چچا زاد کے پاس لے گئیں،
اس نے آپ کی نبوت کو تسلیم کیا اور آئندہ پیش آنے والے حالات سے آگاہ کیا اور بھر پور مدد کی یقین دہانی کرائی۔
(6)
دین کی تبلیغ اور اس کی نشر واشاعت کرنے والوں کو مصائب وآلام،
اور اپنوں کی دشمنی وعداوت سے گزرنا پڑتا ہے،
یہ میدان پھولوں کی سیج نہیں ہے،
کانٹوں بھری راہ ہے،
جس کی لیے صبر وثبات اور استقامت وپامردی کی ضرورت ہے۔
(7)
سب سے پہلے اترنے والی وحی،
سورۃ علق کی ابتدائی آیات ہیں جو غار حرا میں اتریں،
اور پھر تقریبا ڈھائی سال تک وحی کی آمد بند رہی۔
(8)
عربوں کے آداب کے مطابق بڑے کو چچا کے نام سے پکارا جاتا تھا،
ورقہ چونکہ عمر رسیدہ تھے،
اس لیے انہیں آپ کا چچا کہا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4956
4956. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا۔ آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا: ”پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھیے، آپ کا رب بہت کریم ہے جس نے بذریعہ قلم تعلیم دی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4956]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ اکرم اس اعتبار سے ہے کہ اس نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی زندگی اوراس کی بقا کے لیے وہ تمام اسباب مہیا کر دیے جو اس کے لیے ضروری تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اس اسباب کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی انسان کی فطرت میں رکھ دیا۔
اسی اکرم کا نام لے کر آپ پڑھیں۔
2۔
اللہ تعالیٰ انسان کے لیے زندگی کے ہر پہلو کے اعتبار سے اکرم ہے وہ اس اعتبار سے بھی اکرم ہے کہ اس نے انسان کو قلم کے استعمال کا طریقہ سکھایا جس سے علم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہو سکتی ہے اور لکھی ہوئی چیز کسی عالم کی موت کے بعد برقرار رہتی ہے اور نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4956