حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ شَيْئًا فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ الْأَرْضَ، فَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ؟ قَالَ:" اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} سورة الليل آية 5-6 الْآيَةَ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4949
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو مختلف طرق کے ساتھ کئی عنوانات کے تحت ذکر کیا ہے۔
إن شاء اللہ اس حدیث کے متعلق بحث کتاب القدر میں آئے گی۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حاصل یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کاتو کسی کو علم نہیں ہے وہ قادر مطلق ہے، وہ تقدیر کو جدھر چاہے پھیرنے پر قادر ہے، اس لیے ہمیں نیک تقدیر کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہنا چاہیے، البتہ اگر انسان نیک عمل کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ٹھکانا جنت میں لکھا ہے اور اگر برے کاموں میں مصروف ہوتو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اس کا ٹھکانا دوزخ میں بنایا گیا ہے، باقی اصل انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہو گا وہی جو اس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے۔
3۔
چونکہ تقدیر کا علم بندے کو نہیں دیا گیا ہےالبتہ اسے اچھی اور بری دونوں راہیں بتادی گئی ہیں، اس لیے ہمارا فرض منصبی یہ ہے کہ اچھی راہ کو اختیار کریں اور بُری راہ کے پاس نہ جائیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4949
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 85
´عمل کی اہمیت`
«. . . عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَة فِي بَقِيع الْغَرْقَد فَأَتَانَا النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقعدَ وقعدنا حوله وَمَعَهُ مخصرة فَنَكس فَجعل ينكت بمخصرته ثمَّ قَالَ مَا مِنْكُم من أحد مَا من نفس منفوسة إِلَّا كتب مَكَانهَا من الْجنَّة وَالنَّار وَإِلَّا قد كتب شقية أَو سعيدة فَقَالَ رجل يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدع الْعَمَل فَمن كَانَ منا من أهل السَّعَادَة فسيصير إِلَى عمل أهل السَّعَادَة وَأما من كَانَ منا من أهل الشقاوة فسيصير إِلَى عمل أهل الشقاوة قَالَ أما أهل السَّعَادَة فييسرون لعمل السَّعَادَة وَأما أهل الشقاوة فييسرون لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ - [32] - (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصدق بِالْحُسْنَى) الْآيَة . . .»
”. . . اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شخص کا ٹھکانا دوزخ یا جنت میں لکھا جا چکا ہے یعنی جہنمی یا جنتی ہونا اللہ کے علم میں مقرر ہو چکا ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر تو ہم اپنی لکھی ہوئی تقدیر پر بھروسہ نہ کر لیں اور عمل کو چھوڑ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(عمل کو نہ چھوڑو بلکہ) کام کیے جاؤ جس چیز کے لیے جس کو پیدا کیا گیا ہے وہی چیز اس کے لیے آسان کر دی گئی ہے اگر وہ نیک بخت ہے تو نیک بختی کے کام اس کے لیے آسان کر دیے جائیں گے اور اگر وہ بدبخت ہے تو بدبختی کے کام اس کے لیے آسان کر دیئے جائیں گے اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی کہ «فاما من اعطي» الاية اور جس نے دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور کلمہ حسنیٰ کو مان لیا۔“ اس حدیث کو بخاری مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 85]
تخریج:
[صحيح بخاري 1362]،
[صحيح مسلم 6731]
فقہ الحدیث:
➊ سورۂ لیل کی باقی مشار إلیھا آیات درج ذیل ہیں:
«فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَى ﴿٨﴾ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى ﴿٩﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى ﴿١٠﴾ »
”پس ہم اسے عنقریب آسانی مہیا کریں گے، اور جس نے بخل کیا اور (ثواب و عذاب سے) بے پرواہ بنا اور سب سے اچھی چیز (دین اسلام) کو جھٹلایا تو ہم عنقریب اس کے لئے تنگی (عذاب) آسان کر دیں گے۔“ [الليل: 7۔ 10]
↰ معلوم ہوا کہ حدیث قرآن مجید کی تفسیر، تشریح، تصدیق اور بیان ہے۔
➋ صرف یہ کہنا کہ ہماری تقدیر میں جو لکھا ہوا ہے ہمیں ملے گا اور اس سے استدلال کرتے ہوئے نیک اعمال نہ کرنا غلط ہے۔ جنت میں داخلے کے لئے تین شرائط مقرر ہیں:
① ایمان (عقیدہ صحیحہ)
② نیک اعمال
③ اللہ کا فضل و کرم اور رحمت
پوری محنت اور ولولہ انگیز عزم سے شریعت پر عمل کریں اور اللہ سے امید رکھیں کہ وہ اپنے خاص فضل و کرم اور رحمت سے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور ساری خطائیں معاف فرما دے گا۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔
➌ جس مسئلے کا علم نہ ہو یا کوئی اشکال ہو تو علمائے حق سے پوچھ لینا چاہئے تاکہ آدمی صراط مستقیم پر گامزن رہے۔
➍ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔
➎ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر آدمی کے لئے دو ٹھکانے لکھے ہوئے ہیں:
① جنت کا ٹھکانا
② جہنم کا ٹھکانا۔ دیکھئے: صحیح بخاری [1374] صحیح مسلم [70؍2870] اور اضواء المصابیح [126]
جو شخص صحیح عقیدے اور نیک اعمال کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ ہر وقت اپنی خطاؤں پر نادم و تائب رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل و کرم اور رحمت سے جہنم کے ٹھکانے سے بچا کر جنت کے ٹھکانے میں داخل کر دیتا ہے۔ رہا کافر و مشرک اور بدبخت تو اسے جنتی ٹھکانا دکھا کر دور ہٹایا جاتا ہے اور جہنمی ٹھکانے میں داخل کر دیا جاتا ہے، تاکہ وہ افسوس و ندامت سے مسلسل عذاب کا مزہ چکھتا رہے۔ «أعاذنا الله من غضبه ومن عذاب القبر ومن خزي يوم القيامة»
➏ اہل علم سے مسئلہ پوچھتے وقت ان کا نام نہیں لینا چاہئیے، بلکہ عزت و احترام اور انتہائی ادب کے ساتھ سوال کر کے جواب کا انتظار کرنا چاہئیے۔
➐ دنیا میں انسان کی اچھائی اور برائی کا فیصلہ اس کے ظاہری اعمال و عقائد کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے، رہے باطنی اعمال و عقائد تو ان سے صرف اللہ ہی باخبر ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 85
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4694
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت“ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4694]
فوائد ومسائل:
تقدیر اللہ عز وجل کے ازلی وابدی علم کا نام ہے اور ہرشخص کے بارے میں ریکارڈ ہو چکا ہے کہ کو ن کہاں جانے والا ہے، جنت میں یا دوزخ میں۔
اللہ عزوجل کا یہ علم ازلی غلط نہیں ہوسکتا۔
وہ علیم وخبیر ہےاس کے علم میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں۔
مگر کوئی اس مستقبل کے ریکارڈ کو اپنے لئے عذر بنا لے۔
۔
۔
۔
۔
حالانکہ اس کو خبر نہیں کہ کیا لکھا ہے تو یہ لغو محض ہے، تعجب ہے کہ لوگ شرعی تکلیفات میں تقدیر کو بہانہ بناتے ہیں، مگر اپنی ہوا وہوس کے معاملات میں سر توڑ محنت اور کوشش کرتے ہیں اور ان سے باز نہیں رہتے۔
آخرت کے انجام کے سلسلے میں اس دنیا میں ایک علامت ضرور رکھی دی گئی ہے کہ نیکی کا عزم رکھنے والے اور اس میں محنت کرنے والے نیکی کے احوال وظروف کی تائید ملتی رہتی ہے۔
ایسے شخص کے بارے میں امید کرنی چاہیے کہ اس کی عاقبت بھی بفضل اللہ عمدہ ہو گی۔
اور جو شخص بد عملی میں ملوث اور اس کے لئے سر گرداں ہو، اسے انہی مقاصد کے لئے احوال کی تائید مہیا ہو جاتی ہے۔
باوجودیکہ سب کچھ پہلے سے ریکارڈ کر لیا گیا ہے، لیکن انسان خود اس کے متعلق بالکل بے خبر ہے، وہ اپنی مرضی سے اپنی راہ خود چنتا ہے اور خود اس پر چلتا ہے۔
اب یہ اس کا اپنا فیصلہ اوراختیار ہے کہ وہ کونسی راہ اپناتا ہے۔
اللہ تعالی نے فر مایا ہم نےانسان کو رستے کی رہنمائی کردی ہے خواہش کر گزار بن جائے یا نا شکرا اور فرمایا ہم نے انسان کو ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا رخ کرتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4694
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث78
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زمین کو کریدا، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ”جنت و جہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کر لیں (اور عمل چھوڑ دیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کر کے بیٹھو، اس لیے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «فأما من أعطى واتقى و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 78]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں تقدیر الہی کا ثبوت ہے۔
(2)
ہر انسان کے انجام کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور یوں جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ مقرر ہے۔
(3)
تقدیر علم الہی کا نام ہے، بندے کو مجبور کرنے کا نام نہیں۔
(4)
جنت اور جہنم میں داخلے کا تعلق بندوں کے اعمال سے ہے۔
کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قسمت میں کیا ہے، اس لیے نیک اعمال کرنے کی کوشش کرنا اور گناہوں سے بچتے رہنا فرض ہے۔
(5)
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ انسان محنت اور کوشش ترک کر دے بلکہ اسے چاہیے کہ اللہ کے احکام کی تعمیل میں پیش آنے والے خطرات سے خوف زدہ نہ ہو اور مشکلات میں گِھر کر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائے کیونکہ اگر قسمت میں کامیابی لکھی ہے تو وہ ان مشکلات و مصائب کے بعد مل کر رہے گی اور اگر نہیں تو محنت اور نیت کا ثواب تو ضرور ملے گا۔
اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں فرماتا۔
(6)
جو جاہل لوگ فسق و فجور میں مشغول رہتے ہیں اور کہتے ہیں جو تقدیر میں ہے وہی ہو گا، یہ ان کی حماقت ہے بلکہ عمل سعادت و شقاوت کی علامت ہیں، جس کے عمل اچھے ہیں امید ہے کہ وہ سعید ہو گا اور جس کے برے ہیں، اندیشہ ہے کہ وہ شقی ہو گا۔
بہرحال ہر ایک کو اچھے اعمال میں رغبت کرنی چاہیے اور گناہ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر چوری کی حد لگانے لگے، تو وہ کہنے لگا:
تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا، میرا کیا قصور ہے۔
آپ نے فرمایا:
تقدیر کے مطابق ہی ہم تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 78
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3344
´سورۃ «واللیل إذا یغشی» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم (قبرستان) بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، آپ بیٹھ گئے، ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: ”ہر متنفس کا ٹھکانہ (جنت یا جہنم) پہلے سے لکھ دیا گیا ہے“، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم اپنے نوشتہ (تقدیر) پر اعتماد و بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں؟ جو اہل سعادہ نیک بختوں میں سے ہو گا وہ نیک بختی ہی کے کام کرے گا، اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ بدبختی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3344]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے،
لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی تو ہم بھی اس کی تنگی اور مشکل کے سامان میسر کر دیں گے (اللیل: 5-10)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3344
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4948
4948. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے۔ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے سر مبارک جھکا لیا، پھر چھڑی سے زمین کریدنے لگے اور فرمایا: ”تم میں سے کوئی پیدا ہونے والی جان ایسی نہیں جس کا جنت میں اور جہنم میں ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو، یعنی یہ لکھا جا چکا ہے کہ کون نیک بخت ہے اور کون بدبخت ہے۔“ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر ہم اس نوشتے (لکھے ہوئے) پر بھروسا کر لیں اور عمل چھوڑ دیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ جو ہم میں سے نیک ہو گا وہ نیکوں کے ساتھ جا ملے گا اور جو برا ہو گا وہ بروں کے سے عمل کرے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ نیک ہوتے ہیں انہیں نیکیوں ہی کے عمل کی توفیق ملتی ہے اور جو برے ہوتے ہیں، انہیں بروں کے عمل کرنے کی توفیق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4948]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی بحث إن شاء اللہ تعالیٰ آگے کتاب القدر میں آئے گی۔
آنحضرت کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کا تو حال کسی کو معلوم نہیں مگر نیک اعمال اگر بندہ کر رہا ہے تو اس کو اس امر کا قرینہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ٹھکانا بہشت میں کیا ہے اور اگر برے کاموں میں مصروف ہے تو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اس کا ٹھکانا دوزخ میں بنایا گیا ہے باقی ہوگا تو وہی جو اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا اور چونکہ قدر کا علم بندے کو نہیں دیا گیا اور اس کو اچھی اور بری دونوں راہیں بتلا دی گئیں اس لئے بندے کا فرض منصبی یہی ہے کہ اچھی راہ کو اختیار کرے نیک اعمال میں کوشش کرے۔
تقدیر کے بارے میں بعض لوگوں نے بہت سے اوہام فاسدہ پیدا کرکے اپنے ایمان کو خراب کیا ہے۔
تقدیر پر بلا چوں و چرا ایمان لانا ضروری ہے جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے تقدیر الٰہی کے تحت ہوتا ہے۔
اللہ پاک قادر مطلق ہے وہ تقدیر کو جدھر چاہے پھیرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے اس سے نیک تقدیر کے لئے دعائیں کرنا بندے کا فرض ہے اور بس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4948
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1362
1362. حضرت علی ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے قریب تشریف لاکر بیٹھ گئے اور ہم لوگ بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:”تم میں سے کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی جگہ جنت یا دوزخ میں نہ لکھی گئی ہو اور ہرشخص کا نیک بخت یا بدنصیب ہونابھی لکھا گیا ہے۔“ اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! پھر ہم اس نوشتے(لکھے ہوئے) پر اعتماد کرکے عمل چھوڑ نہ دیں، کیونکہ ہم میں سے جو شخص خوش نصیب ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا اور جو شخص بدبخت ہوگا وہ اہل شقاوت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا۔آپ نے فرمایا:”سعید کو عمل سعادت کی توفیق دی جاتی ہے۔ اور شقی کے لیے عمل شقاوت آسان کردیا جاتا ہے۔“ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:”پھر جو شخص صدقہ دے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1362]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیارکی اور اچھے دین کو سچا مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی شرح وَاللیلِ میں آئے گی۔
اور یہ حدیث تقدیر کے اثبات میں ایک اصل عظیم ہے۔
آپ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنا اور محنت اٹھانا ضروری ہے۔
جیسے حکیم کہتا ہے کہ دوا کھائے جاؤ حالانکہ شفا دینا اللہ کا کام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1362
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1362
1362. حضرت علی ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے قریب تشریف لاکر بیٹھ گئے اور ہم لوگ بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:”تم میں سے کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی جگہ جنت یا دوزخ میں نہ لکھی گئی ہو اور ہرشخص کا نیک بخت یا بدنصیب ہونابھی لکھا گیا ہے۔“ اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! پھر ہم اس نوشتے(لکھے ہوئے) پر اعتماد کرکے عمل چھوڑ نہ دیں، کیونکہ ہم میں سے جو شخص خوش نصیب ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا اور جو شخص بدبخت ہوگا وہ اہل شقاوت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا۔آپ نے فرمایا:”سعید کو عمل سعادت کی توفیق دی جاتی ہے۔ اور شقی کے لیے عمل شقاوت آسان کردیا جاتا ہے۔“ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:”پھر جو شخص صدقہ دے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1362]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر کے پاس وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا اذکار و عبادات کے حکم میں نہیں جو کہ قبر کے پاس مکروہ ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص قبر کے پاس جا کر بیٹھے تو اسے انذار و تحذیر کی باتیں کرنی چاہئیں، کیونکہ قبرونشر بالکل قریب ہے، اس کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔
(2)
یہ حدیث اثبات تقدیر کے لیے ایک عظیم دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ اللہ کے بندے ہیں، لہذا بندگی اور اس کے احکام کی بجا آوری ہمارا کام ہونا چاہیے۔
اللہ کی تقدیر کا ہمیں علم نہیں کہ اس کے سہارے عمل ترک کر دیا جائے، پھر عمل کو چھوڑا بھی کیسے جا سکتا ہے؟ کیونکہ اچھے اور برے اعمال تو طے شدہ ہیں اور انجام کا مدار انہی اعمال پر ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے توکل کرتے ہوئے ترک عمل کا سوال کرنے والوں کو بطور اسلوب حکیم جواب دیا ہے کہ وہ اس خیال کر ترک کر کے اپنی عبودیت اور بندگی بجا لانے کا راستہ اختیار کریں اور امور الٰہیہ میں تصرف و دخل اندازی کا راستہ اختیار نہ کریں، اسی طرح عبادت اور ترک عبادت کو دخول جنت اور ورود جہنم کا مستقل سبب خیال نہ کریں بلکہ انہیں صرف علامات کے طور پر اختیار کریں، یعنی عبادات اور نیک اعمال اختیار کرنے والے جنت کے راستے پر گامزن ہیں اور بے عمل و بدکردار جہنم کی سمت چل رہے ہیں۔
(فتح الباري: 288/3)
تقدیر کے متعلق مکمل مباحث کتاب القدر (حدیث: 6605)
کے فوائد میں بیان ہوں گے۔
بإذن الله۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1362
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4945
4945. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ بقیع غرقد میں ایک جنازے کے ساتھ تھے، تو آپ نے اس موقع پر فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں مگر اس کا ٹھکانا جنت میں اور دوزخ میں رکھ دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا پھر ہم اسی پر بھروسا نہ کر لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم عمل کرتے رہو۔ ہر انسان جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اس کے مطابق اسے توفیق دی جائے گی۔“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”جس نے مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور بھلی باتوں کی تصدیق کی (تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا اور بھلائی کو جھٹلایا تو ہم اسے تنگی کے رستے پر چلنے کی سہولت دیں گے)۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4945]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان آیات میں شریعت کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جوشخص یہ اور کام کرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا اور جنت میں جانے کا راستہ آسان بنا دیتا ہے حتی کہ بدی کی راہ پر چلنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور جو شخص یہ اور یہ کام کرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے شریعت پر چلنا مشکل کردیتا ہے۔
اسے نیکی کا راستہ بہت گراں اور بوجھل محسوس ہوتا ہے۔
باقی رہا کسی شخص کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پیشگی علم تو یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کام کرے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کررکھا ہے۔
2۔
بہرحال انسان ہر کام میں آزاد اور خود مختار ہے اور اسی آزادی اور خود مختاری پر انسان کو قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4945
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6217
6217. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم ایک جنازے میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی) آپ چھڑی سے زمین کریدنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا جنت یا دوزخ میں ٹھکانا طے نہ ہوچکا ہو۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: کیا ہم اس پر توکل نہ کرلیں؟ آپ نے فرمایا: عمل کرو کیونکہ ہر شخص جس ٹھکانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے ویسی ہی توفیق دی جائے گی۔ (ارشاد باری تعالٰی ہے:) ”بہرحال جس نے دیا اور اللہ سے ڈر گیا۔۔۔۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6217]
حدیث حاشیہ:
وعظ و نصیحت کرتے وقت زمین پر چھڑی مارنا یا اسے کریدنا بھی فضول حرکت نہیں ہے کہ انسان کو اس سے منع کیا جائے۔
ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے، لہذا اسے بھی فضول حرکت نہ کہا جائے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6217
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6605
6605. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کا جنت وجہنم میں ٹھکانا لکھا جا چکا ہے۔“ حاضرین میں سے ایک آدمی نےکہا: اللہ کے رسول! پھر ہم کیوں نہ اس پر بھروسا کر لیں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں،تم عمل کرو (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے) اس کے لیے وہ چیز آسان کر دی گئی ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ آخر تک۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6605]
حدیث حاشیہ:
(1)
پوری آیات کا ترجمہ:
”پھر جس نے مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور بھلی باتوں کی تصدیق کی تو یقیناً ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں اور جس نے بخل سے کام لیا اور بے پروا بنا رہا اور بھلائی کو جھٹلایا تو یقیناً ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں۔
“ (اللیل: 5/92، 10) (2)
بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آیات بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔
عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ جو شخص مذکورہ بالا کام کرے اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہونا آسان بنا دیا جاتا ہے اور اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دی جاتی ہے حتی کہ بدی کی راہ پر چلنا انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس دوسرے شخص کے لیے جہنم کا راستہ آسان اور نیکی کی راہیں بہت مشکل بنا دی جاتی ہیں، پھر اس کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! جب سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر عمل کس لیے ہوا؟ آپ نے فرمایا:
عمل کے بغیر تو جنت نہیں مل سکتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کی:
اللہ کے رسول! پھر تو ہم عمل کرنے میں جان توڑ کوشش کریں گے۔
(فتح الباري: 606/11) (3)
حیرت کی بات ہے کہ جس حدیث کو سن کر آج عمل چھوڑ دینے کا عہد کیا جاتا ہے، اسی کو سن کر کل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جدوجہد کا عہد کرتے تھے۔
بات اصل یہ ہے کہ وہ حکم کے فرمانبردار تھے لیکن ہم عقل کے بندے ہیں۔
عقل بے چاری دنیا کی معمولی الجھنیں نہیں سلجھا سکتی، وہ تقدیر کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟ ہاں، جب وہ بھی اسلام قبول کر لیتی ہے تو پھر مسائلِ شریعت میں اس کے نزدیک کوئی الجھن، الجھن نہیں رہتی؟ پھر اس میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ جتنا اختیار اسے مل چکا ہے، اسے کام میں لانا اپنا فرض منصبی خیال کرتی ہے۔
(4)
تقدیر کا ہمیں علم نہیں تو پھر عمر میں اختیار سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ رہا کسی شخص کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔
بہرحال انسان کو جیسا اور جتنا اختیار ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائے۔
(5)
تقدیر کے مسئلے کو ہم ایک مثال سے حل کرتے ہیں کہ ایک مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کی تشخیص کر کے اپنے تجربے کے پیش نظر کسی کاغذ پر لکھ دیتا ہے کہ اس نے دوسرے دن مر جانا ہے، پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے دن مر جاتا ہے، اب کیا وہ اس تحریر سے پابند ہو گیا ہے کہ وہ دوسرے دن ہی مرے گا، اگر ڈاکٹر نہ لکھتا تو کیا وہ مریض زندہ رہتا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگی تحریر یا مشیت یا تقدیر کی بات اسے مجبور سمجھنے کی دلیل نہیں بلکہ یہ جو کام بھی کرتا ہے اپنے عزم اور کھلے اختیار سے کرتا ہے۔
تقدیر تو اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے مجبور محض بننے کی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6605
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7552
7552. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے،وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ نے وہاں ایک لکڑی پکڑلی اور اس سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی جگہ دوزخ یا جنت میں لکھ دی گئی ہے۔“ صحابہ نے کہا: کیا ہم اسی پر بھروسا نہ کرلیں؟ آپ نےفرمایا: ”تم عمل کرتے رہو، ہر عمل آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے)“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”جس شخص نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔۔۔۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7552]
حدیث حاشیہ:
1۔
ہمارے اکثر لوگ نوشتہ تقدیر (تقدیر کے لکھے ہوئے)
کو بہانہ بنا کر بد عملی کا شکار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ محض کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں مشیت تو اللہ تعالیٰ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے؟ مشرکین مکہ بھی اپنے اختیاری شرک کے لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو پیش کرتے تھے چنانچہ قرآن میں ہے۔
”یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس (اللہ)
کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت نہ کرتے۔
“ (النحل: 16۔
35)
آج کج فہم قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کا بہانہ پیش کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے نتیجے کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادے اور اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم ہوتا ہے قیامت کے دن انسان کو اپنے ارادے و اختیار کے استعمال پر جزایا سزا ملے گی یہ لوگ فراخی رزق یا طلب اولاد یا بیماری سے شفا یابی کے لیے کبھی تقدیر کا سہارا نہیں لیتے کہ جو کچھ ہمارے مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا بلکہ وہ حصول رزق کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں طلب اولاد کے لیے شادی رچاتے ہیں اور حصول شفا کے لیے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے ہیں لیکن نماز، روزے کے اہتمام سے پہلو تہی کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنا لیتے ہیں 2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ انسان کو اس کے اختیاری عمل پر جزا و سزا دی جائے گی۔
جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے بندہ در حقیقت اپنے اعمال کا فاعل ہے وہ اسی بنا پر مومن یا کافر ہے۔
اسی طرح قاری جب اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھتا ہے تو قراءت اس کا فعل اور کسب ہے اور جسے پڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی صفت ہے جسے اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو اس عمل کی نسبت انسان کی طرف ہوگی اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے گی۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7552