صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
78. سورة {عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ} :
باب: سورۃ «عم يتساءلون» کی تفسیر۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: لَا يَرْجُونَ حِسَابًا: لَا يَخَافُونَهُ، لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا: لَا يُكَلِّمُونَهُ إِلَّا أنْ يَأْذَنَ لَهُمْ صَوَابًا حَقًّا فِي الدُّنْيَا وَعَمِلَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَهَّاجًا: مُضِيئًا، وَقَالَ غَيْرُهُ: غَسَّاقًا غَسَقَتْ عَيْنُهُ، وَيَغْسِقُ الْجُرْحُ يَسِيلُ كَأَنَّ الْغَسَاقَ وَالْغَسِيقَ وَاحِدٌ، عَطَاءً حِسَابًا: جَزَاءً كَافِيًا أَعْطَانِي مَا أَحْسَبَنِي أَيْ كَفَانِي.
مجاہد نے کہا «لا يرجون حسابا» کا معنی یہ ہے کہ وہ اعمال کے (حساب کتاب) سے نہیں ڈرتے۔ «لا يملكون منه خطابا» یعنی ڈر کے مارے اس سے بات نہ کر سکیں گے مگر جب ان کو بات کرنے کی اجازت ملے گی۔ «صوابا» یعنی جس نے دنیا میں سچی بات کہی تھی اس پر عمل کیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وهاجا» روشن، چمکتا ہوا۔ اوروں نے کہا «غساقا»، «غسقت»، «عيينه» سے نکلا ہے یعنی اس کی آنکھ تاریک ہو گئی، اسی سے ہے۔ «يغسق لجراح» یعنی زخم بہ رہا ہے «غساق» اور «غسيق» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی دوزخیوں کا خون پیپ۔ «عطاء حسابا» پورا بدلہ عرب لوگ کہتے ہیں «أعطاني ما أحسبني.» یعنی مجھ کو اتنا دیا جو کافی ہو گیا۔