�
فقہ الحدیث معترض (منکرین حدیث) کا اعتراض: امام بخاری نے حدیث کی سند میں عطا خراسانی کو عطاء بن ابی رباح سمجھ لیا ہے، حالانکہ وہ عطاء خراسانی ہے، اور اس کو نہ ابن عباس سے سماع ہے اور نہ اس سے ابن جریج کو، لہٰذا حدیث منقع ہو گئی۔
تبصرہ: میں کہتا ہوں کہ سند بخاری میں تو صرف یوں مرقوم ہے:
«قال عطاء عن ابن عباس» ان عطاء کے خراسانی ہونے کی کیا دلیل ہے؟ بحالیکہ اس میں خراسانی کی کوئی تصریح نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ وہ عطا بن ابی رباح ہے، جس سے انقطاع کا شبہ بالکل مدفوع ہے۔ بناءِ ثبوت جب صرف اقوالِ شارحین پر ہی موقوف ہے، تو ہم سے سنئے: قسطلانی میں ہے:
«لكن البخاري ما أخرجه الاّ على أنه من رواية عطاء بن أبى رباح، لأن الخراساني ليس على شرطه، ولقائل أن يقول: هذا ليس بقاطع فى أنّ عطاء المذكور هو الخراساني فيحتمل أن يكون هذا الحديث عند ابن جريج عن الخراساني وابن ابي رباح جميعا» [283/7] یعنی امام بخاری نے اس حدیث کو عطا بن ابی رباح کی روایت سے بیان کیا ہے، اس لئے کہ عطاء خراسانی ان کی شرط پر نہیں ہے، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس کے یقین ہونے کا کیا ثبوت ہے کہ یہ عطا خراسانی ہی ہے؟ بلکہ احتمال ہے کہ ابن جریج کے پاس، یہ حدیث عطاء خراسانی و عطاء بن ابی رباح ہر دو کی روایت سے ہو اور امام بخاری نے اس سے عطا بن ابی رباح مراد لیا ہو۔
(کیونکہ عطا خراسانی ان کی شرط پر نہیں ہے۔) «فإذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال!» ↰ لہٰذا خراسانی کا تعین باطل ہو گیا۔
علامہ عینی سے اس کی بابت جو آپ نے
«فيه نظر» کا جملہ نقل کیا ہے، اس میں خود نظر ہے، اس لیے کہ حالات رواۃ امام بخاری پر پوشیدہ نہ تھے، ہاں
«فسبحان من لا يخفيٰ عليه شيء» تو تمام اشیائے موجودہ فی السماءوالارض وما تحت الثری کے متعلق ہے۔ جن کا جاننے والا اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ عالم الغیب وہی ہے۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
«الذي قوي عندي أن هذا الحديث بخصوصه عند ابن جريج عن عطاء الخرساني وعن عطاء بن أبى رباح جميعا انتهي» [فتح الباري: 377/2] ”یعنی یہ حدیث خاص کر ابن جریح کے پاس عطاء خراسانی و عطا بن ابی رباح ہر دو کی سند سے ہے۔
“ اور اس جواب کو علامہ عینی نے بھی نقل کیا ہے، جسے مولوی عمر کریم نے بھی اہل فقہ میں نقل کیا ہے، لیکن اس پر علامہ عینی کا احتمال امکان کہ یہ شاید امام بخاری پر پوشیدہ رہا ہو، بے ثبوت و خلاف ہداہت ہے۔ افسوس کے ایسے مہمل اور لایعنی اعتراضات سے معترض خود اپنی قلیل البضاعتی کا اظہار کرتے ہیں، اللہ ہدایت دے۔ آمین۔