صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ} ، {قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ نے تمہارے لیے قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے“۔
حدیث نمبر: 4913
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، أَنَّهُ قَالَ:" مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ، حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعْنَا وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، قَالَ: فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ؟ فَقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي، فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: مَا لَكَ وَلِمَا هَا هُنَا وَفِيمَ تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ، فَقَالَتْ لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَقَالَ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ، فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ، فَأَخَذَتْنِي وَاللَّهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ، وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ، فَقَالَ: افْتَحْ افْتَحْ، فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ، فَقَالَ: بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ، فَقُلْتُ: رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ، فَأَخَذْتُ ثَوْبِي، فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَذِنَ لِي، قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ، فَبَكَيْتُ، فَقَالَ:" مَا يُبْكِيكَ؟" فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو؟ میری بیوی نے اس پر کہا: خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (حفصہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ بھی کر دیا تھا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا (ناراضگی) سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آ جانا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو! کھولو! کھولو! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام (رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4913 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4913
حدیث حاشیہ:
روایت میں ضمنی طور پر بہت سی باتیں ذکر میں آگئی ہیں، خاص طور پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فاروقی جلال کا بیان بڑے اونچے لفظوں میں بیان فرمایا ہے اس پر مولانا وحیدالزماں مرحوم کا نوٹ درج ذیل ہے۔
ہیبت حق ست ایں از خلق نیست ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست ”حضرت عمر کا جاہ و جلال ایسا ہی تھا یہ اللہ کی طرف سے تھا اتنا سخت ترین رعب کہ موافق مخالف سب تھراتے رہتے تھے۔
مقابلہ تو کیا چیز ہے مقابلہ کے خیال کی بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔
“ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دس بارہ سال اورزندہ رہتے تو ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام نظر آتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مخالفین جو شیعہ اور روافض ہیں وہ بھی آپ کے حسن انتظام اور خوبی سیاست اور جلال اور دبدبہ کے معترف ہیں۔
ایک مجلس میں چند رافضی بیٹھے ہوئے جناب عمر کی شان میں کچھ بے ادبی کی باتیں کر رہے تھے، انہیں میں سے ایک باانصاف شخص نے کہا کہ حضرت عمر کو انتقال کئے ہوئے آج تیرہ سو برس گزر چکے ہیں اب تم ان کی برائی کرتے ہو بھلا سچ کہنا اگر حضرت عمر ایک تلوار کاندھے پر رکھے ہوئے اس وقت تمہارے سامنے آ جائیں تو تم ایسی باتیں کر سکو گے۔
انہوں نے اقرار کیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سامنے آ جائیں تو ہمارے منہ سے بات نہ نکلے۔
اس موقع پر حضرت عمر کا بیان دوسری روایت میں یوں ہے جب میں آپ کے پاس پہنچا دیکھا تو آپ کے چہرے پر ملال معلوم ہوتا تھا میں نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں گویا آپ کا دل بہلایا پھر ذکر کرتے کرتے میں نے کہا یا رسول اللہ! میری جورو اگر مجھ سے بڑھ بڑھ کر کچھ مانگے تو میں اس کی گردن ہی توڑ ڈالوں، اس پر آپ ہنس دیئے آپ کا رنج جاتا رہا۔
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی اور لیاقت اور علم مجلسی پر آفریں۔
مسلمانو! دیکھو پیغمبر کا عشق اس کو کہتے ہیں۔
پیغمبر صاحب کا رنج صحابہ کو ذرا بھی گوارا نہیں تھا۔
اپنی بیٹیوں کو ٹھونکنے اور تنبیہ کرنے پر مستعد تھے۔
افسوس ہے کہ ایسے بزرگان دین عاشقان رسول پر ہم تہمتیں باندھیں اور اس زمانہ کے بد معاش منافق لوگوں پر قیاس کرکے ان کی برائی کریں۔
یہ شیطان ہے جو تم کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور بزرگان دین نثار ان سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تم کو بدگمان بناتا ہے توبہ کرو توبہ لا حولَ وَ لَا قُوةَ إلا باللہَ (وحیدی)
روایت میں سلم کے پتوں کا ذکر ہے۔
سلم قرظ کو کہتے ہیں جس کے پتوں سے چمڑا صاف کرتے ہیں غالباً کیکر کا درخت ہے جس کی چھال سے چمڑہ رنگا جاتا ہے۔
اس موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے سرو سامانی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اظہار ملال بھی بجا تھا۔
ہائے بادشاہ کونین نے دنیا میں زندگی بے سر و سامانی اور تکلیف کے ساتھ بسر کی۔
مسلمانو! ہمارے سردارنے دنیا اس طرح کاٹی توہم کیوں اپنی بے سر و سامانی اور مفلسی پر رنج کریں اور دنیا کے بے حقیقت اور فانی مال ومتاع کے لئے ان دنیا دار کتوں سے کیوں ڈریں۔
یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں ایک بوریا اور ایک پانی کا کوزہ ہم کو کہیں بھی مل جائے گا۔
کوئی ہم کو ڈراتا ہے دیکھوشرع کی سچی بات کہو گے تو نوکری چھن جائے گی کوئی کہتا ہے شہر سے نکالے جاؤ گے۔
ارے بے وقوفو! شہر سے نکالیں گے پر زمین سے نہیں نکال سکتے۔
ساری زمین میں کہیں بھی رہ جائیں گے نوکری چھین لیں گے تو چھین لیں ہم تجارت اور محنت کرکے اپنی روٹی کمالیں گے۔
پروردگار رازق مطلق ہے وہ جب تک زندگی ہے کسی بہانے سے روٹی دے گا۔
تم لاکھ ڈراؤ ہم ڈرانے والے نہیں ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔
﴿و عَلی اللہِ فَلیَتَوَکلِ المُومِنُونَ﴾ (وحیدی)
حضرت حفصہ جن کا روایت میں ذکر ہے حضرت عمر بن خطاب کی صاحبزادی ہیں، ان کی والدہ زینب ہیں جو مظعون کی بیٹی ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کے نکاح میں تھیں اور حضرت خنیس کے ہمراہ ہجرت کر گئی تھی، غزوہ بدر کے بعد حضرت خنیس کا انتقال ہو گیا۔
پھر حضرت عمر نے ان کا نکاح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔
یہ 3ھ کا واقعہ ہے۔
ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک طلاق دے دی تھی لیکن اللہ پاک نے آپ پر وحی سے اطلاع کر دی کہ حفصہ سے رجوع کر لو کیونکہ وہ بہت روزہ رکھتی ہیں، رات کو عبادت کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ رہیں گی۔
چنانچہ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کر لیا۔
ان کی وفات شعبان45ھ میں بعمر60 سال ہوئی۔
رضي اللہ عنها و أرضاھا (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4913
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4913
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم مزاج اور حوصلہ مند تھے۔
آپ معمولی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے لیکن ازواج مطہرات سےناراضی اس بات کی دلیل تھی کہ یقیناً یہ بات قابل برداشت نہیں ہے۔
ان دونوں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کا رویہ واقعی ایسا ہی قابل اعتراض تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو جانے اور بالا خانہ میں خلوت نشین ہونے پر حق بجانب تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات پر حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو ان کے رویے پر شدت کےساتھ تنبیہ فرمائے۔
2۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس معاملے میں صرف حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا قصور نہیں تھا بلکہ دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی کچھ نہ کچھ اس میں حصے دارتھیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئندہ آیات میں تمام ازواج مطہرات کو تنبیہ کی گئی ہے۔
اور یہ بات بھی تاریخ پر ثبت ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں:
ایک میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جبکہ دوسری پارٹی میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور باقی ازواج رضوان اللہ عنھن اجمعین شامل تھیں۔
حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ ایک دفعہ تمام ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیرت کا رعب جمانے کے لیے باہمی اتفاق کرلیا تھا جو عورتوں کی طبیعت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4916)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4913
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4153
´آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب: تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4153]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کا مال جمع نہیں کیا بلکہ زہد اختیار فرمایا۔
(2)
گھر میں ایک دو دقت کی خوراک موجود ہونا زہد کے منافی نہیں۔
(3)
بے تکلف ساتھیوں میں صرف تہ بند پہن کریعنی قمیص پہنے بغیر بیٹھنا جائز ہے۔
(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے شدید محبت رکھتے تھے۔
(5)
کافروں کو ان کی نیکیوں کا معاوضہ دنیا ہی میں دنیوی سامان یا عیش و عشرت کی صورت میں مل جاتا ہے۔
(6)
مسلمان پر دنیوی تنگ دستی آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5191
5191. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے نبی ﷺ کی ان دو بیویوں کے متعلق سوال کروں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اگر تم دونوں (بیویاں) اللہ کے حضور توبہ کرتی ہو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں۔“ حتیٰ کہ آپ نے حج کیا اور میں بھی آپ کے ہمراہ حج کے لیے گیا۔ چنانچہ جب وہ ایک دفعہ راستے سے ایک طرف ہوئے تو میں بھی پانی کا ایک برتن لے کر ان کے ہمراہ راستے سے الگ ہو گیا۔ پھر جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان سے عرض کی: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل راہ راست سے کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5191]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مت کہا کر آپ کے ہاں روپیہ اشرفی نہیں ہے اگر تجھ کو کسی چیز کی حاجت ہو، تیل ہی درکار ہو تو مجھ سے کہو میں لا دوں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مت کہنا۔
یہاں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ خاوند کے بارے میں باپ کا اپنی بیٹی کو سمجھانا جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔
جس میں ازواج مطہرات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے یا الگ ہو جانے کا اختیار دیا گیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5191
5191. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے نبی ﷺ کی ان دو بیویوں کے متعلق سوال کروں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اگر تم دونوں (بیویاں) اللہ کے حضور توبہ کرتی ہو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں۔“ حتیٰ کہ آپ نے حج کیا اور میں بھی آپ کے ہمراہ حج کے لیے گیا۔ چنانچہ جب وہ ایک دفعہ راستے سے ایک طرف ہوئے تو میں بھی پانی کا ایک برتن لے کر ان کے ہمراہ راستے سے الگ ہو گیا۔ پھر جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان سے عرض کی: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل راہ راست سے کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5191]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس طویل اور لمبی حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کے خاوند کے متعلق وعظ و نصیحت کرتا رہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دختر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو دو ٹوک الفاظ میں وعظ فرمایا کہ بیٹی تم خود کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر قیاس نہ کرو۔
وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہیں۔
انھیں اپنے حسن و جمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر بہت ناز ہے۔
اگر تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کہنا، اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ نہ کرنا۔
(2)
واقعی گھریلو معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔
بعض دفعہ ابتدا میں بہت معمولی ہوتے ہیں لیکن اگر ذرا سی غفلت اور سستی کی جائے تو نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت حال اختیار کرلیتے ہیں، خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اسے طبعی طور پر اپنے باپ، بھائی اور خاندان پر ناز ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں وہ اپنے خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عورتوں کی اس قسم کی نفسیات کو خوب سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے بروقت اس بات کا نوٹس لیا اور اپنی بیٹی کو سمجھایا۔
باپ کو چاہیے کہ وہ پہلے دن ہی سے اپنی بیٹی کو کہہ دے کہ اب تیری خوشحالی و بدحالی تیرے خاوند سے وابستہ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا باعث بھی تیرا خاوند ہی ہے۔
تو امید ہے کہ عائلی زندگی جنت کی نظیر ثابت ہوگی۔
والله المستعان. (3)
وه قصہ کیا تھا جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی؟ اور وہ راز کیا تھا جسے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ظاہر کیا؟ اللہ تعالیٰ کا عتاب کس بات پر ہوا؟ ان تمام باتوں کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کر آئے ہیں، اسے وہاں ایک نظر دیکھ لیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5191