4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ: 1۔
عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اعتقادی نفاق کا شکار تھے جس کی درج ذیل چھ قسمیں ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھیں انتہائی بغض تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بھی وہ خوش نہیں تھے۔
۔
وہ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔
۔
ان تعلیمات کی بھی تکذیب کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرآئے تھے۔
۔
دین اسلام کی مدد کو انتہائی ناپسند خیال کرتے تھے۔
۔
دین اسلام کو نیچا دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے:
”اورجب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی واپس چلے گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپارہے ہیں اسے اللہ خوب جانتاہے۔
“ (المائدة: 61/5) ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا مقصد حصول ہدایت نہیں بلکہ دھوکا دہی ہوتا تھا ایسی حاضری سے انھیں فائدہ بھی کیا ہو سکتا تھا۔
واللہ اعلم۔