صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4883
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سُورَةُ الْحَشْرِ، قَالَ: قُلْ سُورَةُ النَّضِيرِ.
ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہیں ابوبشر (جعفر بن ابی) نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الحشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا بلکہ اسے سورۃ النضیر کہا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4883 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4883
حدیث حاشیہ:
سورہ توبہ میں منافقین کے رسوا کن کردار کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت نے تو بہت سارے بد کردار لوگوں کو ذلیل کیا اور ان کی حقیقت حال سے پردہ اٹھایا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو انتہائی ورع اور تقویٰ کی وجہ سے خیال گزرا کہ شاید یہ سورت اب کسی کو نہیں چھوڑے گی اور سب کے حالات بیان کردے گی لیکن اس میں تو منافقین اور اللہ کے حکم پر عمل نہ کرنے والوں کا ذکرِ شر کیا گیا ہے۔
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ حشر کو حشر کہنا اس لیے اچھا خیال نہ کیا کہ شاید لوگوں کا ذہن قیامت کی طرف منتقل ہو جائے، حالانکہ حشر سے مراد قیامت کا حشرنہیں بلکہ اس میں بنو نضیر کی جلا وطنی کا ذکر ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4883