حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 32".
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2937
´سورۃ القمر میں «مدکر» کو دال مہملہ سے پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر» ۱؎ پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2937]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہی مشہور قراء ت ہے یعنی دال مہملہ کے ساتھ اس کی اصل ہے (مُذْتَکِر) (بروزن (مُجْتَنِب) تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا اور ذال کو دال میں مدغم کر دیا تو ﴿مُدَّکِر﴾ ہو گیا،
بعض قراء نے (مُذَّکِر) (ذال معجم کے ساتھ) پڑھا ہے بہرحال معنی ہے:
پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا (القمر: 40)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2937
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1914
ابواسحاق سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے اسود بن یزید سے جبکہ وہ مسجد میں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے، سوال کیا، تم اس آیت کو کیسے پڑھتے ہو؟ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ دال پڑھتے ہویا ذال؟ انھوں نے جواب دیا، دال پڑھتا ہوں۔ میں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ﴿مُّدَّكِرٍ﴾ دال کے ساتھ سنا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1914]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عربی کے صرفی قاعدہ کی روسے اس کو دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اگرچہ ہماری قرآءت میں دال ہے،
لیکن بعض قاریوں نے یہاں (ذال)
پڑھا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1914
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3341
3341. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ کی تلاوت فرمائی جیسا کہ عام لوگوں کی قراءت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3341]
حدیث حاشیہ:
بعض نے مذکر ذال کے ساتھ پڑھا ہے۔
چونکہ اس روایت میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے اس حدیث کو یہاں لایا گیا ہے۔
حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوح بہت عظیم رسول گزرے ہیں۔
قرآن مجید میں ان کا بیان کئی جگہ آیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3341
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3345
3345. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھنے سنا ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ ”کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3345]
حدیث حاشیہ:
یہ آیت سورۃ قمر میں قوم عاد کے قصہ میں بھی آئی ہے۔
اس مناسبت سے یہ حدیث بیان کی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3345
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4871
4871. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے ایک شخص کو اسود سے پوچھتے ہوئے سنا کہ سورہ قمر میں آیت ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ ہے یا مذكر ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا، وہ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی ﷺ کو ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھتے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4871]
حدیث حاشیہ:
یہ اللہ عز وجل کا فضل و کرم ہے کہ قرآن و حدیث کے مطالب اس نے سہل و آسان رکھے ہیں تاکہ عام و خاص سب ان کا مطلب سمجھ سکیں اور ان پر عمل کر یں اورآج بفضلہ قرآن و حدیث کے تراجم دوسری زبانوں میں شائع ہو رہے ہیں جن سے غیر عربی بھی قرآن و حدیث کو سمجھ کر ہدایت حاصل کر رہے ہیں۔
الحمد للہ ثنائی ترجمہ اور منتخب حواشی والا قرآن مجید اس کا روشن ثبوت ہے اور بخاری شریف مترجم اردو بھی روشن دلیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4871
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3376
3376. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3376]
حدیث حاشیہ:
یہ آیت سورۃ قمر میں حضرت لوط ؑکے قصے میں وارد ہے۔
اس مناسبت سے اس حدیث کو اس باب میں بھی دکر کردیا ہے۔
جیسے پہلے بھی کئی با ر گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3376
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3341
3341. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ کی تلاوت فرمائی جیسا کہ عام لوگوں کی قراءت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3341]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح بنتی ہے کہ اس میں ایک آیت کا ذکر ہے جو حضرت نوح ؑ کی کشتی کی شان میں نازل ہوئی چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ ”ہم نے اس کشتی کو لوگوں کی عبرت کے لیے باقی رکھا، کیا ہے کوئی اس سے نصیحت لینے والا۔
“ (القمر: 54۔
15)
بعض احادیث میں ہے کہ کشتی نوح ؑ کو اس امت کے پہلے لوگوں نے دیکھا ہے۔
واللہ أعلم۔
2۔
اس آیت کریمہ میں لفظ (مدکر)
ادغام اور دال کے ساتھ پڑھا گیاہے۔
یہ مشہور قراءت ہے اور اسے ادغام اور ذال کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔
یہ شاذ قراءت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لفظ کو ادغام اور دال کے ساتھ پڑھا تھا اور یہی لوگوں میں عام ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3341
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3345
3345. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھنے سنا ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ ”کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3345]
حدیث حاشیہ:
یہ آیت کریمہ قوم عاد کی ہلاکت کے واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری ؒنے اسی مناسبت سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (18)
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (19)
تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ (20)
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (21)
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ ”قوم عاد نے جھٹلایا پھر میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا؟ ہم نے ایک منحوس دن میں ان پر سناٹے کی آندھی چھوڑدی جو مسلسل چلی۔
وہ لوگوں کو یوں اکھاڑ کر پھینک رہی تھی جڑے اکھڑے ہوئے کھجوروں کے تنے ہوں پھر میرا عذاب اورڈرانا کیسا رہا؟ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا پھر کیا ہے کوئی نصیحت ماننے والا۔
“ (القمر: 18، 22)
یہ عذاب ٹھنڈا یخ آندھی کا تھا جو مضبوط قلعوں میں گھس کر لوگوں کو پٹخ پٹخ کر زمین پر مارتی اور ان کی گردن توڑ کر رکھ دیتی تھی۔
أعا ذنااللہ منها۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3345
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3376
3376. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3376]
حدیث حاشیہ:
چونکہ یہ آیت کریمہ حضرت لوط ؑ کے واقعے کے بعد ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر پتھر برسائے مگر لوط کے گھر والوں کو ہم نے سحری کے وقت بچا کر وہاں سے نکال دیا۔
“ (القمر: 33/54،34)
اس واقعے کے آخر میں ہے۔
”پھر کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟“(القمر: 40/54)
اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3376
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4869
4869. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4869]
حدیث حاشیہ:
1۔
روایات میں یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام قراءت کی طرح (مُّدَّكِرٍ)
پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنیباء، حدیث: 3341)
یعنی ہم نے اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا اس سے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔
2۔
اس کا ایک بلند و بالا پہاڑ پر موجود ہونا سیکڑوں، ہزاروں برس تک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے خبردار کرتا رہا۔
اور انھیں یاد دلاتا رہا کہ اس سر زمین پر اللہ کی نا فرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس شامت سے بچا لیا گیا؟ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جا تا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4869
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4870
4870. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4870]
حدیث حاشیہ:
انسان اگر اپنے قلب وذہن کے دریچے کھول کر اسے عبرت کی نگاہ سے پڑھے نصیحت کے کانوں سے سنے اور سمجھنے والے دل سے اس پر غور کرے تو دنیا وآخرت کی سعادت کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں اور یہ اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں میں اتر کر کفر و معصیت کی تمام آلود گی صاف کر دیتی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان میں طلب صادق ہو اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کی تڑپ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4870
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4871
4871. حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے، انہوں نے ایک شخص کو اسود سے پوچھتے ہوئے سنا کہ سورہ قمر میں آیت ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ ہے یا مذكر ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا، وہ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی ﷺ کو ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھتے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4871]
حدیث حاشیہ:
1۔
قوم عاد پر جو عذاب آیا یہ بہت ہی عبرت انگیز اور نصیحت آموز تھا کہ مسلسل سات دن اور آٹھ راتیں تیز، یخ بستہ اور شاں شاں کرتی ہوئی ہوا چلتی رہی۔
یہ ہوا گھروں اور بند قلعوں سے انسانوں کو اٹھاتی اور اس طرح زور سے انھیں زمین پر پٹختی کہ ان کے سر ان کے دھڑوں سے الگ ہو جاتے۔
یہ عذاب اس وقت تک جاری رہا۔
جب تک وہ سب ہلاک نہیں ہوگئے۔
2۔
اس آیت میں ان کے دراز قد کے ساتھ ان کی بے چارگی کا بھی اظہار ہے کہ عذاب الٰہی کے سامنے وہ کچھ نہ کر سکے حالانکہ انھیں اپنی طاقت و قوت پر بہت گھمنڈ تھا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4871
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4873
4873. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4873]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ الفاظ ہرقوم کی سرگزشت کے بعد ٹیپ کے بند کی طرح بار بارآتے ہیں۔
یاد رہے کہ لفظ ذکر ان مقامات پر بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی تعلیم و تذکیر، تنبیہ و نصیحت، حصول عبرت اور اتمام حجت سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔
2۔
سیاق وسباق کے اعتبار سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ ہمارے پیغمبر تمھیں جس عذاب سےڈرا رہے ہیں وہ ایک اٹل حقیقت ہے۔
زمین کا چپہ چپہ اس کی صداقت پر گواہ ہے لیکن تم لوگ غفلت میں پڑے ہو۔
جب اس عذاب کی نشانی دیکھ لو گے، تب مانو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم و تذکیر کے لیے یہ قرآن اتارا ہے جو تمہارے لیے ایک ضابطہ حیات اور اس کے جملہ لوازمات سے آراستہ ہے۔
آخر تم اس عظیم نعمت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ عذاب کے تازیانے کے لیے کیوں بے قرار ہو؟ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4873
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4874
4874. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے سامنے ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ﴾ پڑھا تو آپ نے فرمایا: ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ پڑھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4874]
حدیث حاشیہ: 1۔
﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ ضب کا شکار ہوئے۔
اب دیکھ لو جو انجام ان کا ہوا وہی انجام تمہارا ہو گا۔
تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے خطرے کے ظاہر ہونے سے پہلے پہلے ہوشیار کر دینے کے لیے قرآن اتارا ہے جو عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لیے ہر پہلو سے آراستہ ہے لیکن افسوس کہ تم اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے عذاب کے طالب ہو اور اس کے لیے جلدی مچا رہے ہو۔
واللہ المستعان۔
2۔
واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چھ عنوانات کے تحت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک ہی حدیث بیان کی ہے، آپ کا دو باتوں پر تنبیہ کرنا مقصود ہے۔
۔
لفظ
(مُدَّكِرٍ) کو دال کے ساتھ پڑھا جائے یہ لفظ ذال کے ساتھ نہیں ہے، چنانچہ آخری حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذال کے ساتھ پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصیح کردی۔
۔
قرآن کریم میں جو قصص و واقعات بیان ہوئے ہیں، انھیں سن کر فضا میں تحلیل نہ کر دیا جائے بلکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے بصورت دیگر تمہارا انجام بھی پہلی قوموں جیسا ہوگا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4874