Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا} :
باب: آیت «وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4868
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" انْشَقَّ الْقَمَرُ فِرْقَتَيْنِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4868 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4868  
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا یہ پانچ حدیثیں ہیں جو شق القمر کے باب میں وارد ہیں۔
تین شخص ان کے راوی ہیں حضرت ابن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف روایت کے گواہ ہیں باقی حضرت انس رضی اللہ عنہ تو اس وقت مدینہ میں تھے ان کی عمر پانچ برس کی ہوگی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس وقت تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن ان کے سوا اورایک جماعت صحابہ نے بھی شق القمر کا واقعہ نقل کیا ہے۔
مترجم کہتا ہے اگر شق القمر نہ ہوا ہوتا اور قرآن میں یہ اترتا کہ چاند پھٹ گیا توسب کے سب قرآن کو غلط سمجھتے، اسلام سے پھر جاتے۔
بس یہی ایک دلیل اس واقعہ کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ ماضی بمعنی مستقبل ہے جیسے ﴿ونُفِخَ في الصُورِ﴾ (الکهف: 99)
﴿وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا﴾ (الفجر: 22)
میں اس لئے کہ جو کام آئندہ ممکن الوقوع ہے، اس کا زمانہ ماضی میں بھی واقع ہونا ممکن ہے جب سچے شخص اس کے وقوع کی گواہی دیں۔
اب یہ کہنا کہ اجرام علویہ قابل خرق و التیام نہیں ہیں ایک خود رائے شخص ارسطو کی تقلید ہے جس نے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی۔
اگر ارسطو کو یہ معلوم ہوتا کہ مرکز عالم آفتاب ہے اور زمین بھی ایک سیارہ اور اجرام علوی میں داخل ہے چاند زمیں کا تابع ہے اس پر بڑے بڑے غار موجود ہیں تو ایسی بے وقوفی کی بات نہ کہتا۔
زمین قابل خرق و التیام نہیں، یہ کیا معنی، خود سورج قابل خرق و التیام ہے، بہت سے حکیم کہتے ہیں کہ زمین سورج ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو الگ ہو کر آ رہا ہے اور اپنے ثقل کی وجہ سے سورج سے اتنے فاصلہ پر تھما ہوا ہے رہا یہ امر کہ تم نے اپنی عمر میں اجرام علویہ کا خرق و التیام نہیں دیکھا تو تم کیا تمہاری عمر کیا پشہ کے داند کہ خانہ ازکیت (وحیدی)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کی دعاؤں سے چاند کا پھٹ جانا بالکل حق الیقین ہے۔
معجزہ اسی چیز کو کہا جاتا ہے جز انسانی عقل کو عاجز کرنے والا ہو۔
انبیاء کرام کے معجزات برحق ہیں معجزات کا انکار کرنا یا ان میں بے جا تاویلات سے کام لینا یہ سچے مومن مسلمان کی نشانی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4868   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4868  
حدیث حاشیہ:

شق القمر، یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جو تین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت مدینہ طیبہ میں تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی عینی شاہد ہیں بہر حال ان کے علاوہ کئی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے شق القمر کا واقعہ نقل کیا ہے۔

چاند کا پھٹ جانا بالکل حق الیقین ہےاس کی بے جا تاویل کرنا عقل کے خلاف ہے۔
اگر شق القمر کا واقعہ پیش نہ آیا ہوتا اور قرآن اس کا ذکر کرتا تو سب لوگ قرآن کو غلط کہتے اور اسلام سے پھر جاتے یہی ایک دلیل اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے اس لیے یہ تاویل کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ یہ قرب قیامت کے وقت ہوگا اور ماضی مستقبل کے معنی میں ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو اہل مکہ کو جادو کہنے کی ضرورت نہ تھی مشرکین کے مطالبے پرشق القمر ہوا۔
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حاضرین سے فرمایا:
دیکھو اور گواہ رہو۔
جب سب لوگوں نے صاف طور پر اس معجزے کو دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ مکہ مکرمہ میں رات کے وقت پیش آیا۔
اس وقت بہت سے ممالک میں تو دن ہوگا۔
وہاں اس واقعے کے ظاہر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اور کچھ ممالک میں نصف یا آخر شب ہوگی۔
جس وقت عام دنیا سوئی ہوتی ہے جاگنے والے بھی ہر وقت چاند کو نہیں دیکھتے رہتے کہ چند لمحات کے واقعےکو وہ دیکھ سکتے پھر زمین پر پھیلی ہوئی روشنی میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جس کی وجہ سے کسی کو اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہوتی اس لیے دنیا کی عام تاریخوں میں اس کا ذکر نہ ہونے سے اس واقعے کی تکذیب نہیں کیا جا سکتی۔
اس کے علاوہ برصغیر کی مستند تاریخ تاریخ فرشتہ میں اس واقعے کا ذکر موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس اپنے روزنامچے میں لکھوایا۔
پھر یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بنا۔

بعض روایات میں ہے کہ خود مشرکین مکہ نے بھی باہر سے آنے والے لوگوں سے اس کی تصدیق کی۔
اس وقت مختلف اطراف سے آنے والے لوگوں نے یہ واقعہ دیکھنے کی شہادت دی تھی۔

ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستند اور معتبر تاریخ کتب حدیث ہیں جب ان میں یہ واقعہ موجود ہے تو دوسری کتب تاریخ میں اسے تلاش کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں رہتی پھر اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پردی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے نیز جب دنیا کی اکثریت اور ایسے تاریخ نویسوں نے اس دیکھا ہی نہ ہو تو لکھیں کیا؟ بہرحال شق القمر یعنی چاند پھٹنے کا واقعہ ہو چکا ہے۔
اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4868