Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
80. بَابُ الْخَوْخَةِ وَالْمَمَرِّ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجد میں کھڑکی اور راستہ رکھنا۔
حدیث نمبر: 467
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكِيمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ عَاصِبٌ رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ مِنْ أَبِي بكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنْ خُلَّةُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ سُدُّوا عَنِّي، كُلَّ خَوْخَةٍ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے باپ جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، وہ عکرمہ سے نقل کرتے تھے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے۔ سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا، کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر بن ابوقحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو اور اگر میں کسی کو انسانوں میں سے جانی دوست بناتا تو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو بناتا۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے۔ دیکھو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی کھڑکی چھوڑ کر اس مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 467 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:467  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسجد سےمتصل مکان کی کھڑکی مسجد کی طرف کھول دی جائے تاکہ مسجد میں آنے کی سہولت ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟مذکورہ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل کے لیے یہ خصوصی اجازت ہے کہ وہ مسجد میں حاضری کی سہولت کے پیش نظر مکان کے عقبی جانب کوئی کھڑکی وغیرہ نکالیں۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان مسجد سے متصل تھا اور اس کا اصل دروازہ مغربی جانب تھا، لیکن اس کے عقبی جانب مسجد نبوی میں آنے کے لیے ایک کھڑی تھی جس سے بوقت ضرورت مسجد میں آتے جاتے تھے۔
دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اپنے اپنے مکانات سے مسجد نبوی کی جانب کھڑکیاں کھول رکھی تھیں۔
نبی ﷺ نے مرض وفات میں اللہ کے حکم سے ان تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کردینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ا بو بکر کی کھڑکی کے علاوہ تمام دروازے بند کردیے جائیں۔

اس حدیث میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ انھیں خلافت کے زمانے میں نماز پڑھانے کے لیے آنے جانے میں سہولت رہے گی۔
چنانچہ ابن حبان ؒ نے اس روایت کی بایں الفاظ تشریح کی ہے:
یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خلیفہ ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ آپ نے یہ کہہ کر کہ مسجد میں سے ابو بکر ؓ کے علاوہ تمام صحابہ کی کھڑکیاں بند کردی جائیں تمام لوگوں کی خلافت سے متعلق دلچسپی کو یکسر ختم کردیا۔
(فتح الباري: 19/7)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں طبع سلیم رکھنے والوں کے لیے اس روایت میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بالکل واضح استدلال ہے۔
متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی تو آپ نے اسے دوبارہ آنے کے متعلق فرمایا:
اس نے عرض کیا:
اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو کس کے پاس جاؤں؟ آپ نے فرمایا:
اگر تم مجھے نہ پاؤں تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنا۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3659)

مسجد نبوی کی طرف دروازہ باقی رکھنے کی فضیلت حضرت علی ؓ کے متعلق بھی منقول ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مسجد کے تمام دروازے بند کردیے جائیں، لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔
(مسند أحمد: 331/1)
حضرت علی ؓ کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔
امام ابن جوزی ؒ نے اس روایت کو موضوع قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ روافض نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی فضیلت سے معارضے کے لیے اس روایت کو وضع کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت سے متعلق یہ روایت متعدد طرق سے ثابت ہے اور کچھ روایات درجہ حسن کی ہیں اس لیے اسے موضوع قراردینا درست نہیں۔
البتہ ان کے مابین تعارض کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک وقت کی بات نہیں دوبار الگ الگ اوقات میں دروازے بند کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
حضرت علی ؓ کے دروازے کا کھلا رہنا بہت پہلے کی بات ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے گھر کا دروازہ ہی ایک تھا اور وہ مسجد میں کھلتا تھا اس مجبوری کے پیش نظر جب پہلی بار دروازے بند کرائے تو حضرت علی ؓ کا دروازہ کھلا رہا دیگر دروازے بندے کردیے گئے۔
لیکن مسجد نبوی میں آتے وقت فاصلہ کم کرنے کے لیے کھڑکیاں باقی رکھی گئیں۔
پھر جب آپ وفات سے چند یوم پہلے مسجد میں تشریف لائے تو ان تمام کھڑکیوں کو بھی بند کردیا گیا صرف حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی کھڑکی کو کھلا رہنے کی اجازت دی گئی تاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نماز پڑھانے کی خدمت بجا لانے میں سہولت رہے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بھی واضح ہدایت ہوجائے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس تطبیق کو ابو بکر کلا بازی ؒ اور امام طحاوی ؒ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 20/7)

حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے علوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کے مرض وفات میں پیش آیا، چنانچہ آپ کی وفات سے چار دن پہلے جو جمعرات تھی اس کی صبح واقعہ قرطاس پیش آیا کہ آپ کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے لیکن لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور و شغب درست نہیں۔
اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا:
پھر ظہر کے وقت جب بیماری میں کچھ کمی محسوس ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ پانی کی سات مشکیں میرے سر پر ڈالوشاید کچھ سکون ہواوربعض لوگوں کو کچھ وصیت کر سکوں۔
حکم کی تعمیل کی گئی تو قدرے سکون ہوا۔
پھر آپ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے ظہر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد منبر پر فروکش ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔
یہ خطبہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا واقعہ قرطاس صبح کو پیش آیا اور اسی دن ظہر کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے میں وہی مضمون تھا جو آپ تحریر فرمانا چاہتے تھے۔

خلت سے مراد تعلق ہے جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر اور آپ کے درمیان یہ تعلق ممکن ہی نہیں، البتہ اسلامی اخوت اور دینی محبت کا اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجہ ہو سکتا ہے وہ ابو بکر صدیق ؓ اور آپ کے درمیان قائم ہے ان کے برابر نہ کسی کی مودت ہے اور نہ اخوت ان الفاظ میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی جو منقبت بیان ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پوری امت میں ان کے درجے کا کوئی نہیں ہے۔
۔
۔
رضی اللہ عنہ۔
۔
۔
واضح رہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا یہ مکان مسجد نبوی سے متصل اور باب السلام اور باب الرحمة کے درمیان واقع تھا پھر آپ نے اس مکان کو فروخت کردیا اور اس کی قیمت مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت پر صرف کردی لیکن اس کے بعد بھی وہ مکان حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مشہور رہا۔
اب وہاں مسجد نبوی کا ایک مستقل دروازہ باب ابی بکر کے نام سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس کھڑکی کی جگہ:
(هذه خوخة أبي بكر(الصديق رضي الله عنه)
لکھ دیا گیا ہے۔
نوٹ:
۔
ان دوں احادیث کے بقیہ فوائد "کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم "میں تحریر کیے جائیں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 467   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3657  
3657. ایوب سے روایت ہے (انھوں نے عکرمہ سے انھوں نے ابن عباس ؓ سے انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا) اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ضرور ابو بکر ؓ کو بناتا لیکن اخوت اسلام افضل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3657]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی اس حدیث کو تین مختلف طرق سے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے جس خلت کی نفی کی ہے اس میں حاجت کے معنی ہیں،یعنی اگرمیں تمام حاجات میں کسی کو اپنا مرجع اور جملہ مہماتِ امور میں کسی پر کلی اعتماد کرتا تو حضرت ابوبکر کو یہ استحقاق دیتا لیکن تمام امور میں میرا ملجا وماویٰ اور جس پر مجھے مکمل اعتماد ہے وہ صرف اللہ کی ذات گرامی ہے،البتہ ابوبکر میرا اسلامی بھائی ہے اور اخوتِ اسلام ہی افضل ہے۔
اس طرح اس کے لیے یہ اعزاز ہی کافی ہے کہ وہ میرا یارغار ہے۔
(عمدة القاري: 389/11)

حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا:
میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا:
ہر نبی کا کوئی نہ کوئی خلیل تھا میرا خلیل ابوبکر ہے۔
اسے اللہ تعالیٰ نے میر اخلیل بنایا ہے۔
جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا۔
(المعجم الکبیر الطبرانی: 201/8۔
رقم: 7816 و سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة، رقم: 3035)

یہ روایت حضرت جندب سے مروی ایک حدیث کے مخالف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا:
میں اللہ کے لیے اس امر سے بری ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1188(532)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اگر حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی حدیث ثابت ہے تو ان میں جمع کی صورت اس طرح ممکن ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حضور اپنی انتہائی تواضع کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓ کی تکریم کے لیے اس وقت آپ کو اجازت دے دی۔
(فتح الباری: 29/7)
بہرحال حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی حدیث کو صحیح بخاری ؒ کی حدیث کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 392/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3657   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6738  
6738. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے: اگر میں اس امت میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی افضل یا بہتر ہے ابو بکر ؓ نے دادے کو باپ کے قائم مقام قرار دیا ہے، یا انہوں نے فیصلہ دیا ہے کہ دادا باپ کی جگہ پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6738]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے باپ اور بھائی کے ساتھ دادے کی وراثت کو بیان کیا ہے۔
ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ باپ کی موجودگی میں دادا محروم رہتا ہے اور اس امر پر امت کے علماء کا اجماع ہے۔
(فتح الباري: 24/12)
نیز باپ کی موجود گی میں ہر قسم کے بھائی ترکے سے محروم قرار پاتے ہیں۔
اب دادے کی موجودگی میں بھائیوں کو میت کی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں، اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔
حضرت ابوبکر، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے حضرت ابو حنیفہ کے نزدیک دادے کی موجودگی میں بھائی محروم رہتے ہیں کیونکہ دادا، باپ کے قائم مقام ہے، البتہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بھائی وارث ہوں گے لیکن ان کا طریقۂ تقسیم بہت پیچیدہ ہے۔
اسے علم میراث کی اصطلاح میں مقاسمة الجد کہا جاتا ہے، یعنی میت کی جائیداد کو دادے اور اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم کرنے کا طریق کار۔
ہم اس کی وضاحت بیان کیے دیتے ہیں:
اگر دادے اور میت کے بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور ان کا مقررہ حصہ انھیں دینے کے بعد کل ترکے کا 1/6 بچے تو وہ دادے کو دیا جائے گا، اس صورت میں بہن بھائی محروم ہوں گے، مثلاً:
میت کے وارث خاوند، ماں، دادا اور بہن بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے:
خاوند کا حصہ 1/2، یعنی کل جائیداد کے تین حصے، ماں کا حصہ1/3، یعنی کل جائیداد کے دوحصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا چھٹا حصہ ہے وہ دادے کو مل جائے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔
اگر اصحاب الفروض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی 1/6 سے کم ہو تو دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول (ابتدائی تقسیم کے بعد مزید ردوبدل کے ذریعے سے)
پورا کیا جائے گا، بہن بھائی محروم رہیں گے، مثلاً:
میت کے وارث خاوند، بیٹی، ماں، دادا اور دیگر بہن بھائی ہیں تو کل جائیداد کے بارہ حصے ہوں گے:
خاوند کا 1/4، یعنی تین حصے، لڑکی 1/2، یعنی چھے حصے، ماں کا 1/6، یعنی دو حصے دادے کے لیے صرف ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا بارھواں حصہ ہے، اس لیے یہاں عول کے اصول پر بارہ کے بجائے تیرہ حصے کرکے دادے کو ان میں سے دو حصے دیے جائیں گے۔
اگر دوسرے اصحاب الفروض کو دینے کے بعد کل ترکے کے چھٹے حصے سے زیادہ بچے تو پھر مقاسمہ ہوگا، یعنی دادے کو ایک بھائی سمجھ کر دادے اور دوسرے بہن بھائیوں کے درمیان ترکہ تقسیم ہوگا۔
(2)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ دادے کہ ساتھ بہن بھائیوں کی تین صورتیں ہیں:
٭ اگر صرف دادا اور بہن بھائی وارث ہوں تو مقاسمہ یا تمام ترکے کا تہائی، ان دو صورتوں میں جو صورت دادے کے لیے بہتر ہوگی اسے اختیار کیا جائے گا، مثلاً:
دادا اور ایک بھائی ہو تو اس صورت میں دادے کے لیے مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح آدھی جائیداد کا حق دار ہوگا اور اگر وارث دادا اور تین بھائی ہیں تو پھر دادے کے لیے کل ترکے کا ایک تہائی بہتر ہے، اس لیے کہ مقاسمہ کی صورت میں اسے 1/4 ملے گا جو 1/3 سے کم ہے۔
٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہوں اور اصحاب الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد کچھ بچے تو اگر چھٹے حصے سے زیادہ باقی بچے تو ایسی حالت میں دادے کے لیے حسب ذیل تین صورتیں اختیار کی جاتی ہیں، ان میں بہتر صورت کو دیکھا جائے:
٭مقاسمہ، ٭ باقی ترکے کا تہائی۔
٭کل ترکے کا چھٹا حصہ۔
مثال:
میت کے وارث خاوند، دادا اور بھائی ہیں تو اس صورت میں مقاسمہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح دادے کو کل ترکے کا 1/4 ملے گا اور اگر میت کے وارث ماں، دادا پانچ بہنیں ہوں تو اس صورت میں باقی ترکے کی تہائی بہتر ہے اور اگر وارث خاوند، ماں، دادا اور دو بھائی ہیں تو اس صورت میں دادے کے لیے کل ترکے کا چھٹا حصہ بہتر ہے۔
٭اگر دادے اور بہن بھائیوں کے ساتھ دیگر اصحاب الفروض بھی ہیں اور اصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی چھٹا حصہ بچتا ہوتو اس صورت میں دادے کو چھٹا حصہ دیا جائے گا اور بہن بھائی سب محروم ہوں گے، مثلاً:
میت کے وارث خاوند، دادا اور دیگر بھائی ہیں تو کل ترکے کے چھے حصے ہوں گے:
خاوند کا نصف تین حصے، ماں کا تہائی، یعنی دو حصے، باقی ایک حصہ بچا جو کل ترکے کا1/(6)
ہے وہ دادے کو ملے گا اور بہن بھائی محروم ہوں گے۔
اگر اصحاب الفروض کو دینے کے بعد چھٹے حصے سے کم بچے تو بہن بھائی محروم اور دادے کا چھٹا حصہ بطریق عول پورا کیا جائے گا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ دادے کی موجودگی میں حقیقی اور پدری بہن بھائی محروم ہوتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6738